ظفر معین بلے جعفری ۔۔۔ ممتاز شاعر،مفکر،محقق ادیب، نقاد، اسکالر اور استاذالاساتذہ پروفیسر ڈاکٹر خالد اقبال یاسر ۔ کلام و تعارف

ممتاز شاعر،مفکر،محقق ادیب، نقاد،  اسکالر اور استاذالاساتذہ پروفیسر ڈاکٹر خالد اقبال یاسر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صاحب کو دنیاٸے  علم و ادب میں ایک کثیر الجہت شخصیت کے طور پر قابل رشک مقام حاصل ہے ۔ ان کا علمی و ادبی سفر بہت دلچسپ اور مثالی ہونے کے ساتھ ساتھ بہت صبر آزما بھی رہا۔ اس سفر میں ہموار راستے بھی یقیناً آٸے لیکن زیادہ تر مسافت دشوار گزار اور ناہموار راستے سے ہوتی ہوٸی آج اس مقام پر ہے کہ جہاں ہم خالد اقبال یاسر صاحب کو دیکھ رہے ہیں۔ اس میں تو دو راٸے ہیں ہی نہیں کہ اگر انہوں نے سمجھوتہ اور مفاہمت پسندانہ روش اختیار کی ہوتی تو بے شک وہ موجودہ منزل تو کٸی دہاٸیوں پہلے پا لیتے لیکن شاید آپ کے اور ہمارے دلوں میں ان کی اسقدر اور اتنی قدر و منزلت اور تعظیم نہ ہوتی۔
پروفیسر ڈاکٹر خالد اقبال یاسر صاحب معیار کے قاٸل ہیں مقدار کے نہیں اور دوسری بات جو انہیں دیگر معاصرین سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کی اصول پسندی ہے۔ میرٹ کے نفاذ کی تحریک کا اگر آپ انہیں بانی نہیں مانتے تو نہ مانیے لیکن اس تحریک کا علمبردار اور صف اول کا قاٸد ہونے کا اعزاز ان سے نہیں چھینا جاسکتا۔ ان کی اس تحریک سے خود انہیں کتنا نقصان پہنچا اس کی تفصیل ایک طویل داستان ہے۔ اس علمی و ادبی سفر کے دوران علم و ادب کے فروغ کے نام پر قاٸم ہونے والے چند اداروں کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ ان کو ڈاکٹر خالد اقبال یاسر صاحب جیسا سربراہ میّسر آیا کہ جس نے چند برسوں میں ثابت کر دکھایا کہ تیز رفتاری سے بھی اعلی معیار کی کارکردگی ثابت کی جاسکتی اگر کام کرنے کی صلاحیت اور اہلیت ہو تو ۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انتہاٸی غیر یقینی حالات اور ناقدری کے رویوں کا سامنا کرنے کے باوجود ان کا تخلیقی سفر بہت بھرپور اور کامیاب انداز میں جاری رہا اور خیر سے ہے۔

ہم نے قارٸین کی دلچسپی کے لیے جناب پروفیسر ڈاکٹر خالد اقبال یاسر صاحب کے علمی اور ادبی سفر کو انتہاٸی اختصار کے ساتھ ماہ و سال کے آٸینے میں ترتیب دینے کی کوشش کی ہے تاکہ ہم اندازہ کرسکیں کہ محض کم و بیش چار دہاٸیوں کی جہد مسلسل،  مشقِ سخن اور تحریر و تحقیق اور ترجمہ نگاری کے دشوار مراحل سے گزر کر انہوں نے اردو ادب کو کتنا مالا مال کیا ہے۔ ان کی شعری اور نثری کتب کے ساتھ ساتھ برسوں کی محنت کے نتیجے میں جو شاہکار تراجم سامنے آٸے ہیں ان کی قدر و قیمت کا اندازہ اگر عہد موجود میں اس انداز میں نہ بھی کیا گیا کہ جس کا وہ متقاضی ہے تو مستقبل کا مورخ تو کر کے ہی رہے گا۔ یہاں اس امر کی وضاحت ازحد ضروری ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ مختلف جامعات میں ڈاکٹر خالد اقبال یاسر صاحب کے فن کی مختلف جہتوں کے حوالے سے متواتر تحقیقی اور تصنیفی کام جاری ہے۔ لیکن اگر اس تحقیقی کام کے معیار کے حوالے سے ہمارے کچھ تحفظات ہیں تو شاید اتنا تو ہمارا حق ہے۔
آٸیے پروفیسر ڈاکٹر خالد اقبال یاسر صاحب کے علمی و ادبی سفر پر ایک سرسری سی نظر ڈالنے سے پہلے ان کی چند شعری تخلیقات کا مطالعہ کرتے ہیں۔

جناب خالد اقبال یاسر صاحب کی غزل نمبر1

اپنا مرا وہاں پہ کوئی بس نہیں رہا
رہنے کو جی نہیں تھا مرا، پس، نہیں رہا

دوآتشہ سے کم نہ ہو آب ِگراں خمار
صہبائے نیم رس سے کبھی مس نہیں رہا

فطرت وہی ہے، زہر وہی، سانپ بھی وہی
پھنکار تو رہا ہے مگر ڈس نہیں رہا

مکروفریب سے مجھے کر تو لیا ہے زیر
مشکیں مگر حریف مری کس نہیں رہا

اتنی بھی شاید اب مری وقعت نہیں رہی
حاسد بھی مجھ پہ فقرہ کوئی کس نہیں رہا

پتلا رہا خطاؤں کا وہ ساری زندگی
میں بھی بزعمِ خویش مقدس نہیں رہا

اپنی ہی فکر کرنے کی نوبت بھی آ گئی
یاسر خیالِ ہر کس و ناکس نہیں رہا
۔۔۔۔۔۔۔۔ 

جناب خالد اقبال یاسر صاحب کی غزل نمبر2

اس جنم میں بھی غلام اگلے جنم میں بھی غلام
اس ریاست میں ہیں تو ملکِ عدم میں بھی غلام

مستعد پاؤ گے واں بھی اپنی خدمت کے لیے
دست بستہ ہوں گے ہم باغِ ارم میں بھی غلام

صرف آقا ہی بدلتے ہیں شکست و فتح سے
اس محل کی باندیاں ہیں اس حرم میں بھی غلام

قسمتوں کا کھیل کہتے ہیں برہمن اور پیر
اس دھرم میں جو ہیں شودر اس دھرم میں بھی غلام

ہو کے رہنا ہے کسی دربار یا درگاہ کا
ہیں سگِ سلطان یا دیر و حرم میں بھی غلام

گو مقرب ہو گیا ہے شاہ کا حلقہ بگوش
بندہ بے دام ہے وضع ِحشم میں بھی غلام

قدردانی ہے مری طاعت گزاری کے عوض
یوں تو مل جاتے ہیں دامِ بیش و کم میں بھی غلام

۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔

جناب خالد اقبال یاسر صاحب کی غزل نمبر3

جیسا بھی اس گھڑی تھا اسی دل سے آ گیا
لنگر اٹھا کے ناخدا ساحل سے آ گیا

آئے جو اپنی آئی پہ یارانِ پیش دست
دامن سمیٹتے ہوئے محفل سے آ گیا

دنیا کو میں قبول ہوں نہ دنیا مجھے قبول
جی تنگ روز روز کی کل کل سے آ گیا

اس کا میں ہم نشیں ہوا کیا کچھ نہ ہار کر
لیکن اتر کے یار کے محمل سے آ گیا

تصویر جیسی دل میں تھی ویسی نہیں تھی وہ
اس واسطے میں لوٹ کے منزل سے آ گیا

جس کی طلب تھی اس کی نہ نکلی کوئی سبیل
درکار جو نہ تھا وہ محاصل سے آ گیا

پہلی سی سرکشی نہ رہی یاسر آخرش
جھکنا مجھے بھی طوق حمائل سے آ گیا

جناب خالد اقبال یاسر صاحب کی غزل نمبر4

اپنا مرا وہاں پہ کوئی بس نہیں رہا
رہنے کو جی نہیں تھا مرا، پس، نہیں رہا

دوآتشہ سے کم نہ ہو آب ِگراں خمار
صہبائے نیم رس سے کبھی مس نہیں رہا

فطرت وہی ہے، زہر وہی، سانپ بھی وہی
پھنکار تو رہا ہے مگر ڈس نہیں رہا

مکروفریب سے مجھے کر تو لیا ہے زیر
مشکیں مگر حریف مری کس نہیں رہا

اتنی بھی شاید اب مری وقعت نہیں رہی
حاسد بھی مجھ پہ فقرہ کوئی کس نہیں رہا

پتلا رہا خطاؤں کا وہ ساری زندگی
میں بھی بزعم خویشِ مقدس نہیں رہا

اپنی ہی فکر کرنے کی نوبت بھی آ گئی
یاسر خیالِ ہر کس و ناکس نہیں رہا

جناب خالد اقبال یاسر صاحب کی غزل نمبر5

آلودہ ہے بارود سے گلزارِ ستمبر
شاید ہے عدو پھر سے طلب گار ِستمبر

مربوط ہوئے رخنے جواں، گاڑھے لہو سے
مضبوط ہوئی اور بھی دیوارِ ستمبر

کچھ اور ہوئی آہن و آتش کی تپش تیز
کچھ اور گھنے ہو گئے اشجارِ ستمبر

بےنام زمانوں کی کماں ہاتھ میں اس کے
سالار ہے تقویم کا سالار ِستمبر

اس قوم کی تاریخ میں کچھ اور بھی دن ہیں
اونچا ہے مگر طرہ دستارِ ستمبر

امثال و علامات و حکایات و روایات
معیار ابدگیر ہے معیار ِستمبر

ہر چند کہ چہکار بھی تھی اس کے گلو میں
تلوار کی جھنکار تھی گفتارِ ستمبر

قدرت کی رعایت تھی، عنایت تھی وگرنہ
ہم تھے نہ کسی طور سزاوارِ ستمبر

گلے کی طرح بٹتی ہے بےبات خدائی
رکھتا ہے بہم نکتہء پرکار ِستمبر

دربان ہی درگاہِ شہیداں کے سہی ہم
کافی ہے یہی نسبتِ دربار ِستمبر

اک تیر ہوا میں بھی چلایا نہیں یاسر
لفظوں سے ہوئے شاملِ پیکارِ ستمبر

جناب خالد اقبال یاسر صاحب کی غزل نمبر6

پرانادن ہی اگلاہےنیاکیاہے
شمارِسال بدلاہےنیاکیاہے

وہی کائی،وہی ٹھہراہواپانی
وہی تالاب گدلا ہےنیاکیاہے

نگاہوں میں رکاہےایک ہی منظر
وہی کھاڑی ہےبگلاہے نیاکیاہے

وہی کونپل، وہی خواہش پنپنےکی
وہی رنگین گملاہےنیاکیاہے

وہی بنسی وہی تانیں گڈریےکی
وہی بھیڑوں کا گلہ ہے یاکیاہے

وہی اک دن کی دوری ہے وہی جھیلیں
وہی مسدود رستہ ہےنیاکیاہے

وہی گھر بے درودیوارسایاسر
وہی سوکھا تغارہ ہےنیاکیاہے

۔۔۔۔۔۔۔

جناب خالد اقبال یاسر صاحب کی غزل نمبر7

وجد انگیز برف اڑتی ہے
شمس تبریز! برف اڑتی ہے

جاگ اٹھتا ہے برف زارِ دل
شورانگیز برف اڑتی ہے

برف صحرا میں کوئی نخلستان
کوئی کاریز، برف اڑتی ہے

آمد آمد ہے پھر زمستاں کی
پھر سے نوخیز برف اڑتی ہے

کاروانوں سے راستے آباد
سوئے کرغیز برف اڑتی ہے

اور دہکائو من کی انگیٹھی
ہے ہوا تیز، برف اڑتی ہے

ہیں سماوار کی گلابی سے
جام لبریز، برف اڑتی ہے

خامہ و نامہ و لفافہ برف
برف کی میز، برف اڑتی ہے

پار یاسر ، دراز شیشوں کے
زمزمہ ریز برف اڑتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جناب خالد اقبال یاسر صاحب کی غزل نمبر8

ہر غمِ روزگار چھوڑ دِیا
بے ثمر اِنتظار چھوڑ دِیا

تب مِلی جبر سے یہ آزادی
جب سے ہر اِختیار چھوڑ دِیا

چھوڑ دی بوریا نشینی بھی
دائمی اِقتدار چھوڑ دِیا

فتح اوروں کے نام کرتے ہُوئے
دَم بَخود کارزار چھوڑ دِیا

غیر تو خیر ساتھ کیا دیتے
خود پہ بھی اِنحصار چھوڑ دِیا

چل دِیا وہ بھی دُوسری جانِب
میں نے بھی وہ دیار چھوڑ دِیا

دفن کردِیں بَھلی بُری یادیں
یاریاں چھوڑیں، یار چھوڑ دِیا

میں یہ سمجھا، کہ میں نے ہی شاید
یارِ مطلب برار چھوڑ دِیا

قافلے نے گزر کے رستے سے
گرد اُڑائی، غُبار چھوڑ دِیا

اپنی خوش بختِیاں تو یاد رَکِھیں
حسرتوں کا شُمار چھوڑ دِیا

سینت کر عجز رکھ لیا دِل میں
برمَلا اِنکسار چھوڑ دِیا

بے دِلی باقی رہ گئی یاسر
بے کلی، اِضطرار چھوڑ دیا

۔۔۔۔۔

جناب خالد اقبال یاسر صاحب کی غزل نمبر9

پکڑ کے ہاتھ قدم قدم مجھے لے گیا
ترا خیال مرا قلم مجھے لے گیا

رکا ہوا تھا جو تیرے گوشہ چشم پر
بہا کے ساتھ وہ بوند نم مجھے لے گیا

کوئی خبر نہ یہاں وہاں کی مجھے رہی
ٹرا جمال تری قسم مجھے لے گیا

پہنچ سکا نہ کوئی جہاں پہ وہاں وہاں
مرا گمان ترا بھرم مجھے لے گیا

خموشیاں بھی تری غضب تھیں مرے لیے
کلام کا ترے زیروبم مجھے لے گیا

کہاں کہاں نہ تری شبیہ لیے پھری
کہاں کہاں نہ مرا شکم مجھے لے گیا

اسیری تھی وہ کہ ہمرہی یہ پتا نہیں
نگاہ کا تری جامِ جم مجھے لے گیا

میں دم بخود وہیں رہ گیا جسے دیکھ کر
صنم کدے سے وہی صنم مجھے لے گیا

الجھ گیا تری مرکیوں کے رچائو میں
تراوہ بھائو سبھائو سم مجھے لے گیا

ستم بلا کے ہٹا سکے نہ مقام سے
تری جبیں کا خفیف خم مجھے لےگیا

ہزار غم تھے اکیلی جاں کو لگے ہوئے
نہ جانے کب کوئی ایک غم مجھے لے گیا

نکل گیا تھا میں دور اپنی زمین سے
تلاش کر کے مرا کٹم مجھے لے گیا

رکا نہ رودک عمر چاہے مرے لیے
بھٹک بھٹک کے سوئے عدم مجھے لے گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔جناب خالد اقبال یاسر صاحب کی غزل نمبر10

شبِ مہ تو ہو گی مگر نے نہ ہوگی
مغنی کی آواز میں لے نہ ہو گی

وہ دستِ طلب تو بڑھائے گا لیکن
صراحی میں اک بوند بھی مے نہ ہو گی

بجز چند مٹتی ہوئی جدولوں کے
خزانے میں باقی کوئی شے نہ ہو گی

وہ روپوش ہو جائے گا خامشی سے
کبھی واپسی کی گھڑی طے نہ ہو گی

نہ وہ تخت ہو گا نہ وہ خانوادہ
دوبارہ عمل داری کے نہ ہو گی

رعیت کو اس نے بہت آزمایا
کسی خشک لب پر کوئی جے نہ ہو گی

جناب خالد اقبال یاسر صاحب کی غزل نمبر11

اگرجدائی یونہی رہےگی دراڑ ایسی
یہ زندگی کس طرح کٹے گی پہاڑ ایسی

ابھی تو آنا ہیں ماہ کےپوہ کےمہینے
ابھی تو پڑنی ہیں گرمیاں جیٹھ ہاڑ ایسی

نہ کوئی مہلت نہ کوئی وقفہ مکالمے کا
گزرتی جاتی ہے سانس پر سانس باڑھ ایسی

خیال اک دوسرے کا خوش وقتیوں میں بھی تھا
بوقت دشنام بھی محبت تھی آڑ ایسی

مرے لیے تھی تری زبانی مزاج پرسی
کسی لحد پر دمکتے فانوس جھاڑ ایسی

کسی کسی کے تھے بول بادِ سموم ایسے
وگرنہ دنیا نہ تھی بیاباں اجاڑ ایسی

سمجھ کے در میں نکلنے لگتا تو سر پٹختا
چنائی دیوار کی تھی کھلتے کواڑ ایسی

کبھی کبھی کوئی جگنو یک بارگی چمکتا
شبِ سفر تھی گھنیری ورنہ جھنکاڑ ایسی

چکا تو دوں میں حساب ِعمر ایک ساتھ یاسر
مگر یہ سودوزیاں کی پوتھی کراڑ ایسی

آٸیے اب پروفیسر ڈاکٹر خالد اقبال یاسر صاحب کے علمی و ادبی سفر کا سرسری سا جاٸزہ لیتے ہیں۔

ممتاز اسکالر ، محقق ، ادیب ، شاعر ، مدیر ، متعدد علمی و ادبی اداروں کے سربراہ ، تمغہ ء امتیاز استاذالاساتذہ پروفیسر ڈاکٹر خالد اقبال یاسر کا علمی و ادبی سفر ماہ و سال کے آٸینے میں ۔

خالد اقبال یاسر: 

پیدائش: 13 مارچ، 1952 ، بھیرہ، ضلع سرگودھا

میٹرک: گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 2, سرگودھا، 1967

سی کام، ڈی کام : گورنمنٹ کمرشل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ، سرگودھا, 1969

بی کام آنرز: ڈھاکہ یونیورسٹی ۔۔۔ نتیجہ معلوم نہیں۔ 1971

بی اے: پنجاب یونیورسٹی، 1973.

ایم اے تاریخ: پنجاب یونیورسٹی، 1978

ایم ایس سی پاکستان سٹڈیز، قائد اعظم یونیورسٹی، 1980

ایم فل اقبالیات: علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، 1992

پی ایچ ڈی اقبالیات:اردو، جامعہ اسلامیہ، بہاولپور

شاعری کا آغاز: 1967

پہلی مطبوعہ نظم: اعتراف، ماہنامہ سیارہ، لاہور، 1968

پہلی دو مطبوعہ غزلیں: فنون، لاہور، 1970

پہلا بین الکلیاتی مشاعرہ: ایبٹ اباد، 1967

مدیر اعلیٰ / مدیر :

پہلی ادارت: احتساب، گورنمنٹ کمرشل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ، سرگودھا ، 1967-69

زیر ادارت خبر نامے، مجلے: ارتکاز، قائد اعظم یونیورسٹی

خبر نامہ اکادمی1982- 1990

سہ ماہی ادبیات، اکادمی ادبیات پاکستان، 1987- 2000

اردو سائنس میگزین، اردو سائنس بورڈ، لاہور 2002 – 2008

بانی مدیر : رسالہ . نملین ۔ 2017

کتب؛ شاعری: دروبست ، گردش ، مزاج ، رخصتی
نثر: احوال و آثار ، ادب اور زمانہ ، جدید تحریکات اور اقبال

کینیڈا؛ ماضی و حال، اردو سائنس انسائیکلوپیڈیا (10- جلدیں), نوبل انعامات کے 103 سال(6 جلدیں)

دیگر کتب: مقالات، ادبی رجحانات، ادبی جائزے، ادبی تناظر وغیرہ

تراجم: محبت روشن رہتی ہے، انداز، کیمیا دان، ڈیلفی کا رتھ بان، پولینڈ کی عشقیہ شاعری، پھل بوٹے وغیرہ

ملازمتیں: ثانوی تعلیمی بورڈ، سرگودھا  1974-1973-

مسلم کمرشل بینک، 1974-75

انجینئرنگ ڈویژن، وزارتِ دفاع، سلطنتِ مسقط و اومان، 1975-77

ادارہ برائے بارانی دیہی ترقی، پنجاب، 1981

اکادمی ادبیات پاکستان، 1981-2001- 2008-9, 2011

قومی مرکز برائے آ لات تعلیم، لاہور (اضافی چارج)
اکادمی برائے تعلیمی منصوبہ بندی و انتظامیات (2000-2001)

اردو سائنس بورڈ، 2001-2008

نیشنل میوزیم برائے سائنس و ٹیکنالوجی، 2011

اردو سائنس بورڈ، 2011-2012

یو این ڈی پی: 2014- 2015

نمل ، اسلام آباد: 2015- 2020 شعبہ ترجمہ و تفہیم اور شعبہ انگریزی زبان و ادب

جامعہ فاطمہ جناح برائے خواتین، راولپنڈی، 2021 تا حال ، شعبہ اردو

ملک کی مختلف جامعات میں تحقیقی کام جاری :۔

پروفیسر ڈاکٹر خالد اقبال یاسر صاحب کی شخصیت اور فن کی مختلف جہتوں کے حوالے سے ملک کی بہت سی جامعات میں تحقیقی کام زور و شور سے جاری ہے۔ تمام تحقیقی مقالات کے عنوانات پر تو نہیں البتہ سر دست جو چند تحقیقی مقالات ہمارے سامنے ہیں ان کے عنوانات پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔

نمبر1:۔ خالد اقبال یاسر کی غزل گوٸی ۔ مقالہ نگار: ۔محترمہ مریم
زیر نگرانی ڈاکٹر جاوید سیال 
نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز ۔ اسلام آباد

نمبر2:۔ خالد اقبال یاسر شخصیت اور فن ۔ مقالہ نگار: عظمی مجید۔ لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی۔ لاہور۔ پاکستان

نمبر3:۔جدید تحریکات اور اقبال از ڈاکٹر خالد اقبال یاسر ۔ مقالہ نگار محترمہ صاٸمہ فاروق جبکہ نگران مقالہ ڈاکٹر شاہد اقبال کامران ۔ علامہ اقبال یونیورسٹی ۔ اسلام آباد

نمبر4:۔ خالد اقبال یاسر کی کتاب رخصتی کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ ۔ مقالہ نگار یاسر حمید جبکہ نگران مقالہ ڈاکٹر عبدالکریم خالد ۔ ڈویژن آف آرٹس اینڈ سوشل سائنسز ۔ یونیورسٹی آف ایجوکیشن ۔ لاہور

نمبر5:۔خالد اقبال یاسر بحثیت مترجم ۔ مقالہ نگار محترمہ عالیہ بتول سیشن 2018 تا 2020. نگران مقالہ ڈاکٹر طاہر عباس طیب صاحب ۔ گورنمنٹ کالج ویمن یونیورسٹی ۔ سیالکوٹ.

ممتاز اسکالر ، محقق ، ادیب ، شاعر ، مدیر ، متعدد علمی و ادبی اداروں کے سربراہ ، تمغہ ء امتیاز یافتہ استاذالاساتذہ پروفیسر ڈاکٹر خالد اقبال یاسر کا کلام و علمی و ادبی سفر ماہ و سال کے آٸینے میں ۔
تحریر و تحقیق :۔ ظفر معین بلے جعفری

Related posts

Leave a Comment