اسداللہ خاں غالب ۔۔۔ صحرا، مگر، بہ تنگئ چشمِ حُسود تھا

جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار صحرا، مگر، بہ تنگئ چشمِ حُسود تھا آشفتگی نے نقشِ سویدا کیا درست ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا لیتا ہوں مکتبِ غمِ دل میں سبق ہنوز لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی میں، ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتۂ خمارِ رسوم و قیود تھا

Read More