دلاور علی آزر ۔۔۔ بہت وسیع بہت خوب رو سمندر ہے

بہت وسیع بہت خوب رو سمندر ہے
میں درمیاں ہوں مرے چار سو سمندر ہے

مرے لیے تو اِسی دائرے میں ہے دنیا
مرے لیے تو یہی آب جو سمندر ہے

ہمارا وصل ڈبو دے گا دشت و صحرا کو
میں ایک سر پِھرا دریا ہوں تو سمندر ہے

نمازِ حشر ادا کرنے والا ہے طوفان!
بچھی ہوئی ہیں صفیں قبلہ رو سمندر ہے

سب اپنا اپنا تعلق جتاتے ہیں اِس سے
کسی کا دوست کسی کا عدو سمندر ہے

کوئی سفینہ اُتارے بغیر بھی خود میں
لہو سے سرخ نہیں سرخ رو سمندر ہے

یونہی ندی نہ سمجھ خود کو آبِ خوش آثار
تجھے یہ علم نہیں ہے کہ تو سمندر ہے

بہانے آیا تھا پانی میں اُس کے خط اور خواب
بہا رہا ہوں مرے دو بہ دو سمندر ہے

میں مد و جزر اُٹھاتا ہوں جام سے آزر
کہ میکدے میں مرا ہم سبو سمندر ہے

Related posts

Leave a Comment