دلاور علی آزر ۔۔۔ الَمیہ

الَمیہ 
(سانحہ اے پی ایس کے تناظر میں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرمریں جسم پہ کپڑوں کی سپیدی سے درِ صبح کُھلا
دھوپ چھاؤں سے بچاتے ہوئے ایک ٹفن میں رکھے
کچھ چمکتے ہوئے خواب
اِک دھڑکتا ہوا دل
اور کچھ اپنی محبت کے حوالے ماں نے
اپنے معصوم مسافر کی جبیں کو دمِ رخصت چوما
گردشِ کون و مکاں اور ذرا تیز ہوئی
ہاتھ کی رحل پہ چہرے کو رکھا اور تلاوت کر کے
کپکپاتے ہوئے ہونٹوں سے محبت کی سند قائم کی
نوریں گالوں پہ ڈھلکتے ہوئے اشکوں کی چمک
ایک لمحے کے لیے آئی ، گئی
لیکن اِک ماں بھلا کیا جانے گی
حادثہ گاہِ جہاں میں جو گیا وہ کبھی لوٹا ہی نہیں
قہقہے اشک میں ڈھل جائیں تو کیا
خواب آنکھوں ہی میں جل جاتے ہیں
وحشت و جبر کی ساعت کو رقم کون کرے
کون بتلائے کہ ماؤں کے کلیجوں کو چبانے سے خدا خوش نہیں ہوتا
احسنِ تقویم کے جانے سے خدا خوش نہیں ہوتا
کون دیکھے کہ گلابوں کی مہک مرثیہ بن جاتی ہے
قتلِ ہر خواب سے چھپ وحشیہ بن جاتی ہے
ماں کی آنکھوں میں چُھپا کرب کوئی کیسے لکھے
جس کے معصوم فرشتے کا بدن خوں میں نہایا ہوا ہو
ایک شاعر اُسے پُرسہ نہیں دے سکتا کبھی
کیسے بتلائے تری کوکھ پہ نوحہ نہیں لکھا جاتا
تُو نہیں جانتی ایمان فروشندہ ہیں
عہدِ ہابیل میں ہم زندہ تھے
عہدِ ہابیل میں زندہ ہیں

Related posts

Leave a Comment