سیاسی نجومی اور کرونا وائرس ۔۔۔ نوید صادق

میرا پاکستان
۔۔۔۔۔

سیاسی نجومی اور کرونا وائرس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہو جس میں ہر شخص ڈاکٹر، ہر فرد انجینئر ، ہر ذی روح ۔۔۔۔ انگریزی کی مشہور کہاوت Jack of all trades but master of none شاید ہم سے بہتر کسی اور قوم پر صادق نہ آتی ہو۔ اب اس کورونا ہی کو لے لیجیے، ریڑھی بان سے سیاست دان تک ۔۔۔ ایک سے ایک نجومی کارگاہِ کورونا میں دخل در نامعقولات کرتا ملے گا۔ یہ شاید ہماری قومی فطرت کا حصہ بن چکا ہے۔ ہرشخص کورونا کے بارے میں اپنی الٹی سیدھی تشخیص، اپنے الٹے سیدھے علاج ، الٹی سیدھی علامات بتاتا ملے گا۔ کبھی کبھی تو یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ ہماری قوم کو طبی ماہرین اور سائنسدانوں کی ضرورت ہی کیا ہے، یہاں تو ایٹم بم بھی ہر شخص بنا لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یقین نہ آئے تو راہ چلتے کسی شخص سے پوچھ لیجیے کہ ایٹم بم کیسے بنتا ہے، یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ آپ کو پورا نسخہ بتا ڈالے گا۔ یہیں مجھے وہ عامل یاد آ گئے جو دوسروں کو رزق میں اضافہ کے لیے تعویذ بنا کر دیتے ہیں، پانی پر دم کر کے ۔۔۔ اپنے سانس میں شامل سب کے سب جراثیم اس پانی میں منتقل کر کے آپ کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں کہ جاؤ، اللہ رزق بڑھائے گا، اللہ شفا دے گا۔ لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھتے چلیے کہ یہی عامل اپنی دو وقت کی روٹی کے لیے دوسروں کے محتاج ہیں۔ یہ تضاد بلکہ بقول سہیل وڑائچ کھلا تضاد نہیں تو اور کیا ہے۔ وہ پنجابی میں کہتے ہیں ناں کہ عقل نہ ہووے تے موجاں ای موجاں، بلکہ مجھے اس کا ایک اُردو ورژن بھی دے دینا چاہیے کہ جہالت ہزار نعمت ہے۔ اچھا یہاں ایک پہلو اور بھی نکلتا ہے کہ انہی غیر معمولی صلاحیتوں کی بنیاد پر self medication کا رواج چل نکلا۔ اب کوئی نہیں جانتا کہ کون سی دواجسم کے کسی حصہ میں درد کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ گردوں یا دل وغیرہ پر بھی اثر کرتی ہے اور ایسا اثر کہ جس کا خمیازہ کہیں بعد میں جا کر بھگتنا پڑتا ہے۔ خیر! بات تو مقصود تھی سیاسی نجومیوں کی اور میں الجھ گیا عوامی رویوں میں ۔۔۔ چلیے کوئی بات نہیں ، یہ سیاست دان بھی تو ہم عوام ہی سی اٹھ کر اوپر گئے ہیں، کہیں اوپر سے تو نہیں اترے۔
ہماری چھوٹی سی لیکن غیر اخلاقی سیاسی دنیا میں سب سے بڑے نجومی تو جناب شیخ رشید ہیں، ان کے علمِ نجوم کا یہ عالم ہے کہ وہ بات کرتے وقت کسی کو بولنے نہیں دیتے اور جب وقت مقررہ پر ان کا علم نجوم انتہائی بے بسی و بے چارگی کے عالم میں ان کی طرف دیکھنے لگتا ہے تو غالباً وہ سگار کا ایک لمبا کش کھینچ کر اس سے یہی کہتے ہوں گے: چپ کر اوئے کھوتے دیا پترا… اگلی واری میں سیاست ای چھڈ دینی اے جے توں کوئی ہور غلطی کرائی۔ اندر کھاتے تو شایدیہی ہوتا ہو لیکن ٹی وی تماشوں میں اپنے علمِ نجوم کے زور پر کیے گئے دعووں کے پورا نہ ہونے پر وہ ۔۔۔ ہیں ویسے ذہین بندے ۔۔۔ کوئی نہ کوئی منطق گھڑ ہی لیتے ہیں اور وہ بھی اس طور کہ تماشا برپا کرنا والا ہکا بکا رہ جاتا ہے۔ اس موقع پر پنجابی میں جو کہا جاتا ہے وہ ۔۔۔ اب میں کیا بتاؤں ۔۔۔ آپ سب سمجھ دار لوگ ہیں۔ یوں بھی…!
اب بات ہو جائے کورونا صاحب کی تو یہ صاحب اس وقت دنیا کے اعصاب پر سوار ہیں، بڑی بڑی عالمی طاقتیں ان کے سامنے بے بس نظر آ رہی ہیں بس ایک ہم ہیں کہ ۔۔۔ کچھ نہیں ہو گا، ہمارے ملک کا درجہ حرارت،ہماری قوتِ مدافعت، ہم پر اللہ کا خاص کرم ہے ۔۔۔ یاد آیا ابھی تھوڑی دیر پہلے ہمارے وزیراعظم موصوف ٹیلی ویژن پر چندہ مہم۔۔۔ جو اُن کا محبوب ترین مشغلہ ہے۔۔۔ کے سلسلہ میں بیٹھے تھے، اخیر میں مولانا طارق جمیل صاحب نے دعا بھی کروائی اور یہ بھی بتایا کہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹ سخت ناپسند تھا، ” اے اللہ! تو ہمیں جھوٹ سے بچا۔۔۔” ( ایسے میں ڈاکٹر ظفر مرزا، ڈاکٹر یاسمین راشد اور ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو بھی سمجھانا بنتا ہے کہ بس! بہت ہو گیا)، لیکن شاید وہ بھول گئے یا شاید انھوں نے خان صاحب کی موجودی میں یہ ارشاد فرمانا مناسب نہیں جانا کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو الزام تراشی سے کس قدر نفرت تھی اور یہ بھی کہ کسی پر جھوٹا الزام لگانے کی اسلام میں کیا سزا ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ میں ایسی باتیں کیوں کر رہا ہوں تو جھوٹ کے ساتھ ساتھ الزام تراشی کی مثالیں ۔۔۔ ہزاروں کی تعداد میں ۔۔۔ دیکھنا ہوں تو تھوڑی دیر کے لیے کوئی ٹی وی تماشا دیکھ لیں۔ آپ کومیری بات میں وزن نظر آئے گا۔ مولانا صاحب نے یہ بھی دعا کی کہ ” اے اللہ! ہماری قوم کو متحد کر ۔۔۔” تو مولانا صاحب نے یہ جملہ ادا کرتے وقت خان صاحب کی طرف جان بوجھ کر نہیں دیکھا ۔۔۔ اب اس کی وجہ تو کوئی ماہر نفسیات ہی بتا سکتا ہے۔ لیکن بات تو سیاسی نجومیوں پر ہونا تھی، چلیے ادھر کا رخ کرتے ہیں۔
کورونا وائرس مئی میں اپنے پیک (Peak) پر ہو گا،سافٹ لاک ڈاؤن میں نرمی کے نتیجہ میں ہمیں پیک دیکھنا ہو گی ۔۔۔ عذرا پیچوہو (وزیرِ صحت صوبہ سندھ)۔ ماہِ مئی کے اخیر اور ماہِ جون کے آغاز میں covid -19 کے باعث اموات کا خطرناک حد تک بڑھ جانا خارج از امکان نہیں ۔۔۔ شاہ محمود قریشی (وفاقی وزیر خارجہ)۔ کورونا وبا کے باعث آنے والے تین چار ہفتے زیادہ خطرناک ہیں ۔۔۔ وزیراعظم عمران خان۔ آیندہ تین چار ہفتے پاکستان کے لیے مشکل ہیں ۔۔۔ ڈاکٹر ظفر مرزا۔ یہ تو رہے چنیدہ سیاست دانوں کے بیانات۔ اب ذرا گذشتہ روز ہونے والی ڈاکٹرز کی پریس کانفرنس ۔۔۔ آپس کی بات ہے، ان معاملات پر حتمی رائے تو انہی اصحاب کی ہونا چاہیے تو ان کے مطابق حکومت جو کر رہی ہے، جو کرنے جا رہی ہے، اس کے بعد یہ وبا اس قدر تیزی سے پھیل سکتی ہے کہ ہمارے ہسپتال کم پڑ جائیں گے اور ہمیں سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر لٹا کر لوگوں کا علاج کرنا پڑے گا۔ اللہ نہ کرے ایسا ہو لیکن طبی ماہرین کی اس رائے کو بری طرح نظر انداز کر دینا خطرے سے خالی نہیں۔ڈاکٹر اشرف نظامی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ لوگ بھوک سے نہیں مریں گے ، وبا سے مر جائیں گے۔ لیکن نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا ہے۔اب ان بے چارے ہمارے طبی ماہرین کو کون سمجھائے کہ ہمارے ملک میں فیصلے زمینی حقائق کی بنیاد پر نہیں، استخاروں بلکہ اس سے بھی دو قدم آگے ’’ٹاس‘‘ پر کیے جاتے ہیں۔ آخر ہمارے وزیراعظم کو اس کا بھی تو خاصا تجربہ ہے۔
یاد کیجیے وہ دن جب پاکستان میں اس وبا کے باعث ایک دن میں چھ اموات ہوئی تھیں تو وزیراعظم پاکستان نے اسے یومِ سیاہ قرار دیا تھا، اور ۔۔۔ اب تو معاملہ یہاں تک آن پہنچا ہے کہ ایک ایک دن میں سترہ سے اکیس اموات بھی ہو رہی ہیں لیکن انھیں کیا، انھیں تو چندہ اکٹھا کرنا ہے، سو وہ کر رہے ہیں۔ مجھے تو یہ خوف ہے کہ ان کی اور کے حواریوں کی فریادیں سن سن کر کسی دن محترم کورونا خود انھیں چندہ دینے آن پہنچیں گے! پہلی دفعہ تو ایدھی صاحب کی برکت کام آ گئی ، اب کوئی اور دعا شاید کارگر نہ ہو سکے۔ واللہ اعلم!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روزنامہ دن

۲۵ اپریل ۲۰۲۰ء

Related posts

Leave a Comment