مرزا غالب ۔۔۔ کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں

کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں آج ہم اپنی پریشانیٔ خاطر ان سے کہنے جاتے تو ہیں پر دیکھیے کیا کہتے ہیں اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو جو مے و نغمہ کو اندوہ ربا کہتے ہیں دل میں آ جاے ہے ہوتی ہے جو فرصت غش سے اور پھر کون سے نالے کو رسا کہتے ہیں ہے پرے سرحدِ ادراک سے اپنا مسجود قبلے کو اہلِ نظر قبلہ نما کہتے ہیں…

Read More

ایک زمین…. حال اچھا ہے : تیئیس شاعر

مرزا غالب حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچھا ہے اس سے میرا مہہ خورشید جمال اچھا ہے بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچھا ہے اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا ساغرِ جم سے مرا جامِ سفال اچھا ہے بے طلب دیں تو مزا اس میں سوا ملتا ہے وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال اچھا ہے ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق وہ سمجھتے ہیں کہ…

Read More

مرزا غالب ۔۔۔۔ حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچھا ہے

حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچھا ہے اس سے میرا مہہ خورشید جمال اچھا ہے بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچھا ہے اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا ساغرِ جم سے مرا جامِ سفال اچھا ہے بے طلب دیں تو مزا اس میں سوا ملتا ہے وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال اچھا ہے ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا…

Read More

مرزا اسداللہ خاں غالب ۔۔۔ غزل

بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا رکھیو یارب یہ درِ گنجینۂ گوہر کھلا شب ہوئی، پھر انجمِ رخشندہ کا منظر کھلا اِس تکلف سے کہ گویا بتکدے کا در کھلا گرچہ ہوں دیوانہ، پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب آستیں میں دشنہ پنہاں ، ہاتھ میں نشتر کھلا گو نہ سمجھوں اس کی باتیں ، گونہ پاؤں اس کا بھید پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا ہے خیالِ حُسن میں حُسنِ عمل کا سا خیال خلد کا اک در ہے میری گور کے…

Read More

غالب

محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا

Read More

غالب

نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا حبابِ موجۂ رفتار ہے نقشِ قدم میرا

Read More

غالب ۔۔۔ دہر میں نقشِ وفا وجہ ِتسلی نہ ہوا

دہر میں نقشِ وفا وجہ ِتسلی نہ ہوا ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا سبزۂ خط سے ترا کاکلِ سرکش نہ دبا یہ زمرد بھی حریفِ دمِ افعی نہ ہوا میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا دل گزر گاہ خیالِ مے و ساغر ہی سہی گر نفَس جادہ سرمنزلِ تقوی نہ ہوا ہوں ترے وعدہ نہ کرنے پہ بھی راضی کہ کبھی گوش منت کشِ گلبانگِ تسلّی نہ ہوا کس سے محرومئ قسمت کی شکایت…

Read More