مرزا غالب ۔۔۔ کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں

کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں آج ہم اپنی پریشانیٔ خاطر ان سے کہنے جاتے تو ہیں پر دیکھیے کیا کہتے ہیں اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو جو مے و نغمہ کو اندوہ ربا کہتے ہیں دل میں آ جاے ہے ہوتی ہے جو فرصت غش سے اور پھر کون سے نالے کو رسا کہتے ہیں ہے پرے سرحدِ ادراک سے اپنا مسجود قبلے کو اہلِ نظر قبلہ نما کہتے ہیں…

Read More

مرزا اسداللہ خاں غالب ۔۔۔ غزل

بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا رکھیو یارب یہ درِ گنجینۂ گوہر کھلا شب ہوئی، پھر انجمِ رخشندہ کا منظر کھلا اِس تکلف سے کہ گویا بتکدے کا در کھلا گرچہ ہوں دیوانہ، پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب آستیں میں دشنہ پنہاں ، ہاتھ میں نشتر کھلا گو نہ سمجھوں اس کی باتیں ، گونہ پاؤں اس کا بھید پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا ہے خیالِ حُسن میں حُسنِ عمل کا سا خیال خلد کا اک در ہے میری گور کے…

Read More

’یادگارِ غالب‘ پر ایک قاری کا نوٹ ۔۔۔ پروفیسر کوثر مظہری

خواجہ الطاف حسین حالی — ایک عالم، ایک مصلح، ایک شاعر، ایک نقاد، ایک سوانح نگار۔ یہ پانچوں صفات محض زیب داستاں کے لیے نہیں۔ آپ حالی کو جہاں جس خانے میں چاہیں رکھ کر پرکھیں، آپ کو مایوسی نہیں ہوگی، شرط یہ ہے کہ آپ کی میزان میں کسی ایک طرف پہلے سے ہی خفیہ پاسنگ کا بٹخرہ موجود نہ ہو۔ ان کی تصانیف میں مولود شریف (1864)، تریاق مسموم (پادری عماد الدین کی کتاب ہدایت المسلمین کے جواب میں غالباً 1868 میں تحریر کی گئی)، تاریخ محمدی پر…

Read More