’یادگارِ غالب‘ پر ایک قاری کا نوٹ ۔۔۔ پروفیسر کوثر مظہری

خواجہ الطاف حسین حالی — ایک عالم، ایک مصلح، ایک شاعر، ایک نقاد، ایک سوانح نگار۔ یہ پانچوں صفات محض زیب داستاں کے لیے نہیں۔ آپ حالی کو جہاں جس خانے میں چاہیں رکھ کر پرکھیں، آپ کو مایوسی نہیں ہوگی، شرط یہ ہے کہ آپ کی میزان میں کسی ایک طرف پہلے سے ہی خفیہ پاسنگ کا بٹخرہ موجود نہ ہو۔ ان کی تصانیف میں مولود شریف (1864)، تریاق مسموم (پادری عماد الدین کی کتاب ہدایت المسلمین کے جواب میں غالباً 1868 میں تحریر کی گئی)، تاریخ محمدی پر منصفانہ رائے (جو پادری عمادالدین کی کتاب تاریخ محمدی کے جواب میں 1872 میں لکھی گئی) پر غور کریں تو ایک عالم کی شان نظر آتی ہے، ’مقدمہ شعر و شاعری‘ اور دوسرے مقالات پر غور فرمائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اردو کا ایک ایسا نقاد محو مکالمہ ہے جس کی نظر میں مشرق و مغرب کے نظریاتِ شعری پوری طرح جلوہ گر ہیں۔ ’مجالس النسا‘ اور ’مسدس مد و جزر اسلام‘ کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ ایک مصلح قوم ہمارے سامنے کھڑا ہے اور اگر ان کی نظموں اور غزلوں کا مطالعہ کریں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اردو شاعری کی نئی اور تازہ کونپلیں پھوٹ رہی ہیں۔ اسی طرح آپ اگر ’حیاتِ جاوید‘، ’یادگارِ غالب‘ اور ’حیاتِ سعدی‘ کو اپنے پیش نظر رکھیں تو یہ باور کرنا پڑتا ہے کہ رچے ہوئے اور سادہ مگر خوبصورت اسلوب میں اردو سوانح نگاری کے نمونے پیش کیے جارہے ہیں۔ تمام تر تفصیلات سے قطع نظر، مجھے یہاں حالی کی تصنیف ’یادگارِ غالب‘ (اردو) کا مطالعہ اپنے فہم و ادراک کی روشنی میں پیش کرنا ہے۔

’یادگارِ غالب‘ حالی کی ایک ایسی تصنیف ہے جو ہمیں غالب کی شخصیت اور شاعری، دونوں سے متعارف کراتی ہے۔ حالی نے سرسید کی زندگی کو بھی دیکھا اور سمجھا تھا اور غالب کی زندگی کو بھی۔ ظاہر ہے کہ زندگی کی جزیات کو جس طرح شرح و بسط کے ساتھ ’حیاتِ جاوید‘ میں پیش کیا گیا، یادگارِ غالب میں اس کا فقدان نظر آتا ہے۔ اس میں بھی یادگارِ غالب کا دوسرا حصہ مرزا کے کلام پر ریویو اور کلام کے انتخاب پر مشتمل ہے۔ اس سے پہلے کے آدھے سے کم حصے میں جگہ جگہ لطیفے، اشعار اور فارسی قطعات بھی ملتے ہیں۔ 41 لطیفے اس حصے میں اور 6 لطیفے بعد والے حصے میں ہیں۔ اس لطیفے کی حقیقت پر آگے گفتگو کی جائے گی۔ آئیے پہلے حالی کی زبانی سنتے ہیں کہ اس ’یادگارِ غالب‘ کی تصنیف کی غرض و غایت کیا رہی ہے:

’’اگرچہ مرزا کی تمام لائف میں کوئی بڑا کام ان کی شاعری اور انشاپردازی کے سوا نظر نہیں آتا مگر صرف اسی ایک کام نے ان کی لائف کو دارالخلافہ کے اخیر دور کا ایک مہتم بالشان واقعہ بنا دیا ہے اور میرا خیال ہے کہ اس ملک میں مرزا پر فارسی نظم و نثر کا خاتمہ ہوگیا؛ اور اردو نظم و نثر پر بھی ان کا کم احسان نہیں؛ اس لیے کبھی کبھی مجھ کو اس بات کا خیال آتا تھا کہ مرزا کی زندگی کے عام حالات جس قدر کہ معتبر ذریعوں سے معلوم ہوسکیں اور ان کی شاعری و انشاپردازی کے متعلق جو امور کہ احاطہ بیان میں آسکیں اور ابنائے زماں کی فہم سے بالاتر نہ ہوں؛ ان کو اپنے سلیقے کے موافق قلم بند کروں۔‘‘              (یادگارِ غالب از حالی، ص 3)

اس اقتباس کے آخر کے دو فقرے غور طلب ہیں۔ ایک تو یہ کہ: جو امور کہ احاطۂ تحریر میں آسکیں اور ابنائے زماں کی فہم سے بالاتر نہ ہوں۔ دوسرا فقرہ: ان کو اپنے سلیقے کے موافق قلم بند کروں۔ پہلا فقرہ حالی کے خلوص نیت کو واضح کرتا ہے کیوں کہ انھیں اس کی فکر بھی ہے کہ ابنائے زماں کی فہم کا خیال بہرحال رکھا جائے، اسی لیے انھوں نے پوری کوشش کی ہے کہ مواد کی پیش کش میں ثقالت اور ژولیدگی پیدا نہ ہو۔ دوسرا فقرہ اس بات کو ہمارے سامنے پوری طرح پیش کرتا ہے کہ حالی نے غالب کے احوال و کوائف کو اپنے سلیقے کے موافق قلم بند کرنے کی کوشش کی ہے۔

اب یہ مطلع صاف ہوجاتاہے کہ اُن کے نثری اسلوب میں جو شفافیت، ایضاح اور صراحت ہے، وہ اس لیے ہے کہ پڑھنے والوں کو عبارت کی تفہیم میں کسی طرح کاتردد نہ ہو اور اس کے لیے حالی نے اہتمام بھی کیا ہے۔ حالی نے ایک طرح سے کھُلے لفظوں میں اس کی طرف اشارہ کردیا ہے کہ یہ میرا اپنا اسلوب ہے، یہاں کسی دوسرے کے اسلوب کی تلاش سعی محض ہے۔ اپنے سلیقے کے موافق قلم بند کرنے کا مفہوم یہی تو ہوسکتا ہے۔

حالی کا ذہن چوں کہ بہت مرتب ہے، اس لیے انھوں نے غالب کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے بھی کچھ  اوصاف اپنے پیش نظر رکھے ہیں۔ ساتھ ہی کتاب کی تصنیف کا مقصد بھی بتایا ہے۔ لکھتے ہیں:

’’اصل مقصد اس کتاب کے لکھنے سے شاعری کے اس عجیب و غریب ملکہ کا لوگوں پر ظاہر کرنا ہے جو خدا تعالیٰ نے مرزا کی فطرت میں ودیعت کیا تھا؛ اور جو کبھی نظم و نثر کے پیرائے میں، کبھی ظرافت اور بذلہ سنجی کے روپ میں، کبھی عشق بازی اور رند مشربی کے لباس میں اور کبھی تصوف اور حبّ اہلبیت کی صورت میں ظہور کرتا تھا۔ پس جو ذکر ان چاروں باتوں سے علاقہ نہیں رکھتا اس کو کتاب کے موضوع سے خارج سمجھنا چاہیے۔‘‘  (دیباچہ یادگارِ غالب، ص 5)

حالی نے اسی لیے پوری کتاب میں جابجا مذکورہ بالا اوصاف کو پیش کیا ہے، جو کہ بقول حالی، غالب کی فطرت میں شامل تھے، بلکہ خدا کی طرف سے عطیہ تھے۔ حالی نے انھیں عجیب و غریب ملکہ تصور کیا ہے جو نظم و نثر میں، ظرافت اور بذلہ سنجی میں، عشق بازی اور رند مشربی میں اور کبھی تصوف اور حُبِّ اہلبیت کی صورت میں نظر آتا ہے۔ سب تو ٹھیک ہے، لیکن حالی جیسے حزم و احتیاط برتنے والے کے لیے یہاں عشق بازی اور رند مشربی کو بھی خدا کی طرف سے ودیعت کردہ ملکہ شمارہ کرنا گراں گزرتا ہے۔ میرے نزدیک یہ ملکۂ اضافی ہے۔ البتہ بقیہ اوصاف بلاشبہ ان کی فطرت کا حصہ ہوسکتے ہیں، بلکہ اسے تسلیم کرلینے میں کسی طرح کا تامل نہیں ہونا چاہیے۔

مرزا غالب کی زندگی اور شخصیت کو سمجھنے میں ’یادگارِ غالب‘ پوری طرح ہماری مدد کرتی ہے۔ حالی نے مرزا کی ولادت سے لے کر ان کے خاندانی پس منظر تک کا ذکر کیا ہے۔ مرزا نے فارسی نظم میں اپنے خاندان کی عظمت کا بیان کیا ہے جس کے کچھ اشعار حالی نے یہاں بھی پیش کیے ہیں۔ حالی نے اسی حصے میں غالب کے استاد عبدالصمد کا حوالہ بھی دیا ہے جو کہ کبھی پارسی تھا اور اس وقت اس کا نام ہُرمُز تھا۔ انھوں نے لکھا ہے کہ عبدالصمد آگرے میں بطور سیاح کے آیا تھا اور غالب کے پاس آگرے اور دہلی میں دو برسوں تک رہا۔ حالی نے لکھا ہے کہ غالب کی عمر جب کہ چودہ برس کی تھی، عبدالصمد وارد ہوا اور دو برس ساتھ رہا۔ اسے قلیل مدت بھی گردانا گیا ہے۔ یہ بھی ذکر ہے کہ غالب نے چوں کہ باضابطہ کسی استاد سے تعلیم حاصل نہیں کی تھی، اس لیے اس نے ایک فرضی استاد گھڑ لیا تھا۔ لیکن پھر یہ بھی ذکر ہے کہ غالب نے عبدالصمد سے کم و بیش فارسی زبان سیکھی تھی اور مرزا نے جا بہ جا اپنی تحریروں میں فخر کیا ہے اور عبدالصمد کو بلفظ تیمسار کے جو پارسیوں کے یہاں نہایت تعظیم کا لفظ ہے، یادکیا ہے۔ ایک  یہ حوالہ بھی ہے کہ نواب مصطفیٰ خاں کہتے تھے کہ مُلّا عبدالصمد نے کہیں دوسرے ملک سے خط لکھا تھا جس میں یہ فقرہ درج تھا:

اے عزیز چہ کسی؟ کہ باین ہمہ آزادیہا گاہ گاہ بہ خاطر می گزری۔‘‘ حالی نے ملا عبدالصمد سے مرزا کے اکتساب فیض پر یہ کہہ کر بھی مہر لگا دی ہے کہ:

’’جیسا کہ قاطع برہان اور درفش کاویانی دیکھنے سے ظاہر ہوتا ہے اس نے تمام فارسی زبان کے مقدم اصول اور گُر اور پارسیوں کے مذہبی خیالات اور اسرار جن کو فارسی زبان کے سمجھنے میں بہت بڑا دخل ہے اور پارسی و سنسکرت کا متحد الاصل ہونا اور اسی قسم کی اور ضروری باتیں مرزا کے دل میں بوجہ اوفیٰ تہہ نشیں کردی تھیں۔‘‘                                                             (یادگارِ غالب، ص 15)

حالی نے غالب کی زندگی اور اُن سے متعلق جو بھی کارگزاری اور اعمال ہوسکتے تھے، ان کا ذکر بڑے ہی خوبصورت انداز میں کیا ہے۔ غالب کی ذہانت و فطانت سے ان کے معاصرین میں سے بہت سوں کو تکلیف بھی پہنچی تھی۔ ان کی ذہانت اور حافظے کا ذکر حالی نے کئی مقام پر کیا ہے۔ ان کے طرزِ مطالعہ پر روشنی ڈالتے ہوئے حالی لکھتے ہیں:

’’جس طرح مرزا نے تمام عمر رہنے کے لیے مکان نہیں خریدا اُسی طرح مطالعے کے لیے بھی باوجودیکہ ساری عمر تصنیف کے شغل میں گزری کبھی کوئی کتاب نہیں خریدی۔ الّا ماشاء اللہ۔‘‘  (یادگارِ غالب، ص 17)

حافظہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’ہمیشہ کرائے کی کتابیں منگوا لیتے تھے اور ان کو دیکھ کر واپس بھیج دیتے تھے۔ مگر جو لطیف یا کام کی بات کتاب میں نظر پڑجاتی تھی ان کے دل پر نقش ہوجاتی تھی۔ کلکتے میں جن لوگوں نے ان کے کلام پر اعتراض کیے تھے، اور جن کے جواب میں مرزا نے مثنوی بادِ مخالف لکھی تھی؛ ان کو مثنوی کے علاوہ ایک ایک اعتراض کے جواب میں دس دس بارہ بارہ سندیں اساتذہ کے کلام سے لکھ کر علیحدہ بھیجی تھیں۔‘‘                                    (یادگارِ غالب، ص 58)

اسی طرح حالی نے ’برہانِ قاطع‘ کے جواب میں ’قاطع برہان‘ کے لکھے جانے کا ذکر تفصیل سے کیا ہے۔ ’دستنبو‘ مکمل ہونے کے بعد مرزا نے تنہائی میں کتاب کا مطالعہ شروع کیا اور پھر اس کا جواب لکھ دیا۔ حالی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ان کے پاس کوئی کتاب نہیں تھی اور لغت کی غلطیوں کو اپنی یادداشت کی بنیاد پر درست کیا تھا۔ انھوں نے چند الفاظ کے حوالے بھی پیش کیے ہیں۔ حالی محض مرزا کی اندھی عقیدت میں سب کچھ نہیں لکھتے،بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ داخلی شہادتیں یاپھر معیاری کتب یا مصنفوں سے ثبوت بھی فراہم کردیں۔ یہاں بھی انھوں نے ایران کے مشہور مصنف رضا علی خاں ہدایت کے فارسی لغت ’فرہنگِ ناصری‘ کا حوالہ دیا ہے۔ یہ فرہنگ مرزا کے انتقال کے چار برس بعد لکھی گئی اور بقول حالی یہ کتاب دس بارہ برس بعد ہندوستان آئی۔ حالی لکھتے ہیں:

’’اس نے اپنی فرہنگ کے شروع میں ایک باب فرہنگِ جہانگیری، فرہنگ رشیدی اور برہان قاطع تینوں کی غلطیوں اور لغزشوں کے بیان میں منعقد کیا ہے…

جو اعتراض مرزا نے برہان پر وارد کیے ہیں؛ ان کی بھی جا بہ جا فرہنگ ناصری سے تائید ہوتی ہے۔‘‘                                            (یادگارِ غالب، ص 42)

حالی فرہنگ ناصری سے بھی چند ثبوت نمونے کے طور پر پیش کیے ہیں بالخصوص ان الفاظ کا ذکر کیا ہے جن پر مرزا نے بھی اعتراض کیے تھے۔ حالی کی سب سے بڑی خوبی جو مجھے نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ کسی بات کو معلق نہیں چھوڑ دیتے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ جب کوئی بات کہی جائے تو اس ضمن میں ثبوت اور حوالے بھی پیش کردیے جائیں۔ اس طرح ’برہان قاطع‘ کے جواب میں لکھی جانے والی کتاب ’قاطع برہان‘ پر بحث و تمحیص کے بعد وہ یہ لکھتے ہیں کہ اگر انصاف سے دیکھا جائے تو قاطع برہان کے دیکھنے سے مرزا کی سلامتی طبع اور ذوق صحیح کا کافی ثبوت ملتا ہے۔ ( یادگارِ غالب، ص 43)

مرزا کی اس سوانح عمری میں تقریباً نو صفحات پر حالی نے برہان قاطع اور قاطع برہان سے متعلق بحث کا سلسلہ دراز رکھا ہے، کیوں کہ یہ ایک ایسا علمی محاذ تھا جس کی پوری تصویرکشی لازمی تھی۔ مرزا کی تصنیف ’قاطع برہان‘ کے خلاف بھی کئی کتابیں اور رسالے شائع ہوئے، یہاں تک کہ گالیوں سے بھرے ہوئے گمنام خطوط بھی مرزا کو بھیجے گئے۔ حالی نے ان سب جہتوں کو نہایت ہی متانت اور دلالت کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ مطلع صاف ہوجائے۔

برہان قاطع والے قضیے کے بعد حالی نے اپنے حوالے سے ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ حالی نے لکھا ہے کہ وہ نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ کے ہمراہ غالب سے ملنے گئے۔ اس زمانے میں ثقل سماعت کے سبب غالب سے گفتگو تحریری طور پر ہوا کرتی تھی۔ حالی نے ایک کاغذ پر لکھ کر غالب کو نماز کی تلقین کی۔ حالی نے اس پر بہت زیادہ شرمندگی کا اظہار کیا ہے۔ اپنی تحریر کو لغو بھی کہا ہے۔ حالی خواہ کیسے ہی شریف النفس اور حلیم الطبع ہوں، لیکن ایسے معاملے میں جہاں تک میں سمجھتا ہوں نہ کسی طرح کی شرمندگی کی ضرورت تھی اور نہ اپنی کسی ایسی تحریر کو لغو ہی تصور کرنا چاہیے تھا۔ وہ لکھتے ہیں:

             ایک روز مجھ سے ایک ایسی غلطی ہوگئی جس کے تصور سے مجھ کو ہمیشہ نہایت شرمندگی ہوتی ہے۔

             ایک روز مرزا کی بزرگی، استادی اور کبر سنی کے ادب اور تعظیم کو بالائے طاق رکھ کر خشک مغز واعظوں کی طرح ان کو نصیحت کرنی شروع کی۔ نماز پنجگانہ کی فرضیت اور تاکید پر ایک لمبا چوڑا لکچر لکھ کر ان کے سامنے پیش کیا۔

             مرزا صاحب نے میری لغو تحریر کو دیکھ کر جو کچھ فرمایا وہ سننے کے لائق ہے۔

حالی لکھتے ہیں کہ مرزا نے جو کچھ کہا وہ دل چسپی سے خالی نہیں بلکہ اس میں ایمان و ایقان کی جھلک بھی موجود ہے:

’’ساری عمر فسق و فجور میں گزری؛ نہ کبھی نماز پڑھی نہ روزہ رکھا، نہ کوئی نیک کام کیا۔ زندگی کے چند انفاس باقی رہ گئے ہیں؛ اب اگر چند روز بیٹھ کر، یا ایما و اشارے سے نماز پڑھی؛ تو اس سے ساری عمر کے گناہوں کی تلافی کیوں کر ہوسکے گی؟ میں تو اس قابل ہوں کہ جب مروں، میرے عزیز اور دوست میرا مونھ کالا کریں اور میرے پاؤں میں رسّی باندھ کر شہر کے تمام گلی کوچوں اور بازاروں میں تشہیر کریں اور پھر شہر سے باہر لے جا کر کتوں اور چیلوں اور کووں کے کھانے کو (اگر وہ ایسی چیز کھانا گوارا کریں) چھوڑ آئیں۔ اگرچہ میرے گناہ ایسے ہی ہیں کہ میرے ساتھ اس سے بھی بدتر سلوک کیا جائے۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ میں موحد ہوں۔ ہمیشہ تنہائی اور سکوت کے عالم میں یہ کلمات میری زبان پرجاری رہتے ہیں: لاالٰہ الا اللّٰہ لا موجود الا اللّٰہ، لا مؤثر فی الوجود الا اللّٰہ۔                                          (غالب، ص 48)

حالی نے اس کی بھی تفصیل لکھی ہے کہ اس واقعے کے دوسرے ہی روز غا لب نے ایک فارسی غزل لکھ کر ان کے پاس بھیجی جس میں اس مذکورہ واقعے کی طرح اشارہ ملتا ہے۔ تیرہ (13) اشعار کی اس غزل سے دو شعر سنیے:

کساں کہ دعویِ نیکی ہمی کنند، مرا

اگر نہ نیک شمارند، بد چراگویند؟

طمع مدار کہ یابی خطابِ مولانا

بس است ہمچو توئی را کہ پارسا گویند

(یادگارِ غالب، ص 50)

غالب کی اس غزل کے جواب میں حالی نے اُنیس (19) اشعار کا قطعہ لکھا۔ اس قطعے میں حالی نے غالب کے شعری اور فکری کمالات کا دل کھول کر ذکر کیا ہے۔ اس قطعے سے چار اشعار ملاحظہ کرلیجیے:

چہ نغمہ ہا کہ بہ قانونِ ذوق سنجیدی

چہ بذلہ ہا کہ باندازِ دل ربا گفتی

ہر آنچہ گفتۂ اندر جواب عرض نیاز

خطا بود کہ بیگرم اگر خطا گفتی

عجب کہ قاعدہ دانِ نیاز مندی را

سفیہ و معجب و خود بین و خود نما گفتی

و لیک شرط ادب نیست، برتو خُردہ گرفت

ہر آنچہ در حقِ من گفتۂ بجا گُفتی

(یادگارِ غالب، ص 50)

اس زمانے میں حالی نواب شیفتہ کے ہاں مقیم تھے۔ غالب نے ایک قطعہ شیفتہ کو بھی لکھ بھیجا۔ یہ قطعہ صرف چار اشعار پر مشتمل ہے، مگر اس میں طنز ہی طنز ہے۔ دو شعر سنیے:

دوبارہ عمر دہندم اگر بہ فرض محال

براں سرم کہ دراں عمر این دوکار کنم

یکے ادائے عباداتِ عمر پیشینہ

دِگر بہ پیش گہہِ حالی، اعتذار کُنم

حالی نے اس قطعہ کا بھی جواب لکھا جو نو (9) اشعار پر مشتمل ہے۔ اس میں حالی نے مرزا غالب سے اپنے رشتہ پر فخر کا اظہار کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ جو بھی شکایت تھی وہ پُرخلوص دوستی کے تقاضے پر مبنی تھی:

شکایتے تو تواں گفت عین اخلاصش

گرم تو دوست شماری، ہزار بار کنم

چو شکوہ جُز بہ تقاضائے دوستی نبود

ز غیر شکر و شکایت ز دوستدار کنم

خوش آں کہ سازکنم از تو شکوۂ بیجا

تو اعتذار کنی و من افتخار کنم

(یادگارِ غالب، ص 62)

بہرحال ’یادگارِ غالب‘ کے اس حصے میں حالی نے غالب کے ایک اہم میلان طبع کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اگر حالی اس حصے کو یا کم ازکم شعری حصے کو حذف کردیتے تو ہرج کیا تھا؟ لیکن غور طلب امر یہ ہے کہ اس مناظرانہ شاعری میں غالب کی موضوعی فکر (Subjective thought) پر روشنی پڑتی ہے اور اس موضوعی فکر سے غالب کی شخصیت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے جو کہ سوانح نگاری کے لیے ضروری ہے اور یہ بھی کہ حالی اس اہم قضیے کو تشنہ چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔

حالی نے اس حصے کے بعد مرزا کی فارسی اور عربی کی استعداد، عروض، علم نجوم اور تصوف سے ان کی گہری دل چسپی اور واقفیت کا ذکر کیا ہے۔ تصوف کے حوالے سے حالی لکھتے ہیں کہ ’’سچ پوچھیے تو انھیں متصوفانہ خیالات نے مرزا کو نہ صرف اپنے ہم عصروں میں بلکہ بارہویں اور تیرہویں صدی کے تمام شعرا میں ممتاز بنا دیا تھا (یادگارِ غالب، ص 54) مرزا خوشخط اور تیز دست تھے یعنی خوش خط بھی تھے اور بہت تیز لکھتے تھے۔ مرزا کے خوش اخلاق ہونے اور ان کی دوست داری کا ذکر حالی اس طرح کرتے ہیں:

’’جو شخص ان سے ایک دفعہ مل آتا تھا اس کو ہمیشہ اُن سے ملنے کا اشتیاق رہتا تھا۔ دوستوں کو دیکھ کر وہ باغ باغ ہوجاتے، اور ان کی خوشی سے خوش اور ان کے غم سے غمگین ہوتے تھے۔ جو خطوط انھوں نے اپنے دوستوں کو لکھے ہیں ان کے ایک ایک حرف سے مہر و محبت و غم خواری  و یگانگت ٹپکی پڑتی ہے۔‘‘

(یادگارِ غالب، ص 55)

مرزا حددرجہ حساس واقع ہوئے تھے۔ دوست داری، غمخواری،مروّت، فراخدلی یہ اوصاف ان کی شخصیت کا حصہ تھے۔ بڑی پابندی سے بیماری کے عالم میں بھی دوستوں اور شاگردوں کے خطوط کے جواب لکھتے یا لکھوایا کرتے، کلام پر اصلاح بھی دیا کرتے۔ انسانی دردمندی ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ حالی نے لکھا ہے کہ ایک بار میسو رکے شہزادے کو اپنی کوئی کتاب بھیجی تو شہزادے نے کتاب ملنے کی رسید بھیجی اور کتاب کی قیمت بھی پوچھ لی۔ حسّاس غالب نے جو جواب دیا، اُسے حالی نے یہاں Quote کیا ہے، ملاحظہ کریں:

حرف پرسشِ مقدارِ قیمت چرا بر زبانِ قلم رفت؟ ہنجارِ نوازشِ نیاز مندانِ بے نوانہ اینست۔ بے سرمایہ، نہ فرومایہ؛ سخنورم، نہ سوداگر؛ موئینہ پوشم، نہ کتاب فروش، پذیرندۂ عطایم، نہ گیرندۂ بہا۔ ہرچہ آزادگاں بہ شہرزادگاںفرستند نذرست؛ ہرچہ شہزادگاں بہ آزادگاں بخشند تبرک، بیع و شرانیست، چوں و چرا نیست۔ ہرچہ فرستادہ ام ارمغانست، و ہرچہ خواہم فرستاد ارمغاں خواہد بود۔‘‘

(یادگارِ غالب، ص 56)

حالی نے غالب کا ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ مرزا کے ایک دوست عمائد شہر میں سے تھے، غدر کے بعد ان کی حالت بگڑ گئی تھی۔ وہ حضرت ہمیشہ مالیدہ یا جامہ دار کا چُغہ زیب تن کیا کرتے تھے۔ حالی لکھتے ہیں:

’’ایک روز چھینٹ کا فرغل پہنے ہوئے مرزا سے ملنے کو آئے۔ چھینٹ کا فرغُل ان کے بدن پر دیکھ کر دل بھر آیا۔ ان سے پوچھا کہ یہ چھینٹ آپ نے کہاں سے لی؟ مجھے اس کی وضع بہت ہی بھلی معلوم ہوتی ہے… انھو ںنے کہا یہ فرغل آج ہی بن کر آیا ہے، اور میں نے اسی وقت اس کو پہنا ہے؛ اگر آپ کو پسند ہے تو یہی حاضر ہے۔ مرزا نے کہا جی تو یہی چاہتا ہے کہ اسی وقت آپ سے چھین کر پہن لوں مگر جاڑا شدت سے پڑرہا ہے آپ یہاں سے مکان تک کیا پہن کر جائیں گے؟ پھر اِدھر اُدھر دیکھ کر کھونٹی پر سے اپنا مالیدہ کا نیا چغہ اتار کر انھیں پہنا دیا اور اس خوبصورتی کے ساتھ وہ چُغہ ان کی نذر کیا۔‘‘   (یادگارِ غالب، ص 58)

آپ نے غور کیا ہوگا کہ حالی اپنے ممدوح مرزا غالب کی شخصیت کو مستحکم کرنے کے لیے کیسی کیسی مثالیں لے کر آتے ہیں۔ اس کے آگے مرزا کی دردمندی اور کس مپرسی کا بیان ہے جس کے لیے انھوں نے مرزا ہی کے ایک خط کا اقتباس پیش کیا ہے۔ حالی اس ہنر سے بخوبی واقف ہیں کہ مرزا کی ذاتی زندگی میں جو مسائل رہے ہیں یا ان کی جو بعض خصلتیں یا بشری کمزوریاں رہی ہیں، ان پر پردہ ڈالنے کے لیے ایسے واقعات اور ایسے لطیفے بہت کارگر ہوتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ یادگارِ غالب (اردو) کے پہلے حصے میں اکتالیس (41) اور دوسرے حصے میں (6) لطیفے ہیں۔ اول تو مجھے لطیفوں کی اس بھرمار سے الجھن سی ہوئی کہ حالی جیسے حددرجہ متین اور سنجیدہ شخص کو آخر ان لطیفوں کے سہارے کی ضرورت کیوں آن پڑی؟ لیکن جب غور کیا تو اندازہ یہ ہوا کہ حالی کے یہ لطیفے غیرضروری نہیں اور نہ ہی پیوندکاری بلکہ حالی نے ان لطیفوں کو پوری کتاب کا جزوِ لاینفک بنا دیا ہے اور یہ سب ازخود نہیں ہوا، بلکہ حالی نے یہ کام حکمت عملی کے تحت کیا ہے۔ ان لطیفوں کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ حالی کی سادہ نثر میں ان سے ایک طرح کی رنگینی، تازگی اور جاذبیت کی کیفیت بھی پیدا ہوگئی ہے۔ پھر یہ کہ مرزا کی جیسی شوخ اور بذلہ سنج شخصیت کا تقاضا بھی یہی تھا۔ حالی نے اس کا ذکر کتاب کے دیباچے میں کیا بھی ہے۔ لکھتے ہیں:

’’…انھیں حالات کے ضمن میں ان کی خاص خاص نظمیں یا اشعار جو کسی واقعے سے علاقہ رکھتے ہیں، اور ان کے لطائف و نوادر جن سے مرزا کی طبیعت کا اصلی جوہر اور ان کی امیجینیشن کی قوت نہایت واضح طور پر ظاہر ہوتی ہے، اپنے اپنے موقع پر ذکر کیے گئے ہیں۔‘‘                               (یادگارِ غالب، ص 7)

اگر غالب کے لطیفوں اور شاعری کے نمونوں کو پیش نظر رکھ کر بات کریں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’یادگارِ غالب‘ کی تصنیف میں خود مرزا غالب کا بھی کچھ نہ کچھ رول ضرور ہے۔ یعنی ان کے لطیفوں اور خطوط کے اقتباس کا جگہ جگہ استعمال کیا جانا۔

حالی نے اپنی کتاب میں غالب کی دردمندی اور مروّت کا ذکر کرنے کے بعد ان کی سخن فہمی، حسن بیان، ظرافت، خودداری، ان کی خوراک، آموں سے رغبت اور اس کے حوالے سے لطیفے، شغلِ بادہ نوشی اور اس سے متعلق غالب کی بذلہ سنجی اور لطیفے پیش کیے ہیں۔ اس ضمن میں اردو کا ایک شعر، فارسی کا ایک شعر اور پھر ایک فارسی رباعی پیش کی گئی ہے۔ آگے بڑھتے ہی، حالی کو احساس ہوتا ہے اور اس لیے شغل بادہ نوشی کے بعد وہ مذہب اسلام سے غالب کی عقیدت اور ان کے مذہب و مسلک کا ذکر چھیڑ دیتے ہیں؛ تاکہ ایک متوازن تناظر خلق ہوسکے۔ حالی نے آگے چل کر بہادر شاہ کے شیعہ ہونے کی بات کی ہے کہ جب بادشاہ کے شیعہ ہونے کی خبر مشہور ہوئی تو بادشاہ کو بہت رنج ہوا۔ پھر اس کے تدارک کے لیے کچھ رسالے شائع ہوئے اور گلیوں اور بازاروں میں اشتہارات چسپاں کرائے گئے۔ بقول حالی مرزا غالب نے بھی بادشاہ کی فرمائش پر ایک فارسی مثنوی ’دمغ الباطل‘ کے نام سے لکھی۔ حالی نے لکھا ہے کہ جب یہ مثنوی لکھنؤ پہنچی تو مجتہد العصر نے مرزا سے یہ پوچھا کہ آپ تو  خود مذہب شیعہ سے تعلق رکھتے ہیں اور مرزا حیدر شکوہ کی نسبت اس مثنوی میں ایسا اور ایسا لکھا ہے؟ مرزا کا جواب کچھ یوں تھا:

’’میں ملازم شاہی ہوں، جو کچھ بادشاہ کا حکم ہوتا ہے اس کی تعمیل کرتا ہوں۔ اس مثنوی کا مضمون بادشاہ اور حکیم احسن اللہ خاں کی طرف سے اور الفاظ میری طرف سے تصور فرمائے جائیں۔‘‘                          (یادگارِ غالب، ص 70)

حالی نے مرزا کا دفاع کیا۔ البتہ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ غالب جب اس قدر خوددار اور اناپرست تھے، جیسا کہ ان کی شاعری میں اس کے نمونے ملتے ہیں، تو پھر اس کا جواز کہاں پیدا ہوتا ہے کہ آدمی صرف بادشاہ کے حکم کی تعمیل میں اپنے مذہب و مسلک کے خلاف قلم اٹھائے، مرزا بھلے ہی یہ کیوں نہ کہتے رہیں کہ ’’اس مثنوی کا مضمون بادشاہ اور حکیم احسن اللہ خاں کی طرف سے اور الفاظ میری طرف سے تصور فرمائے جائیں۔‘‘

حالی نے اسی کی توسیع میں مرزا کی سلامتی طبع کا بھی ذکر کیا ہے اور پھر یہ بھی کہا ہے کہ مرزا کی طبیعت جھوٹی تعریف کی طرف مائل نہیں ہوتی تھی۔ یہاں اقتباس طویل ہوسکتا ہے مگر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ غالب کی شخصیت کے اس پہلو کو حالی نے کس خوبصورتی سے پیش کیا ہے؟ ملاحظہ کیجیے:

’’مرزا از راہ عجز و انکسار کہا کرتے تھے کہ قصائد کی تشبیب میں تو میں بھی جہاں عرفی و انوری پہنچتے ہیں اُفتاں و خیزاںپہنچ جاتا ہوں؛ مگر مدح و ستائش میں مجھ سے ان کا ساتھ نہیں دیا جاتا۔ مرزا کا یہ کہنا بالکل صحیح معلوم ہوتا ہے؛ کیوں کہ جو زور ان کی تشبیبوں میں پایا جاتا ہے وہ مدح میں آکر باقی نہیں رہتا۔ مگر ہم اِس کو اُن کے نقص شاعری پر محمول نہیں کرتے؛ بلکہ غایت درجے کی سلامتِ ذہن اور استقامت طبع کی دلیل جانتے ہیں۔ جھوٹی اور بے اصل باتوں کو چمکانا اور زمین و آسمان کے قُلابے ملانا اور مبالغہ و اغراق کا طوفان اٹھانا فی الحقیقت شاعر کا کمال نہیں ہے؛ بلکہ جس قدر اس کی طبیعت ان باتوں سے اِبا کرتی ہے اسی قدر جاننا چاہیے کہ وہ شاعری سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ مرزا کی ساری عمر قصیدہ گوئی اور مدح سرائی میں گزری؛ کیوں کہ ضرورت انسان سے سب کچھ کراتی ہے۔ مگر فی الحقیقت جیسا کہ ہم آگے بیان کریں گے، ان کو بھٹئی کرنے کا طریقہ جیسا کہ چاہیے ویسا نہیں آتا تھا۔‘‘  (یادگارِ غالب، ص 71)

حالی نے آخر میں یہ لکھا ہے کہ ان کو بھٹئی کرنے کا طریقہ جیسا کہ چاہیے ویسا نہیں آتا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مرزا کو بھٹئی کرنے کا طریقہ آتا ہوتا تو حالی کیا اُن کی مدح سرائی کے اشعار کی تعریف کرتے؟ پھر یہ بھی کہ اگر مرزا نے قصیدہ محض ضرورت کے تحت لکھا تو اس اہم وصف خاص یعنی بھٹئی کرنے میں قباحت ہی کیا تھی؟ اگر ان کے مدحیہ اشعار میں زور بیان نہیں تو اسے حالی مرزا کی غایت درجے کی سلامت ذہن اور استقامت ِ طبع پر محمول کرتے ہیں، یہ نقص شاعری نہیں۔ ایک نکتہ یہ بھی ابھرتا ہے کہ چوں کہ عرفی و انوری کی مدح سرائی میں زور تھا لہٰذا یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ ان دونوں کو بھٹئی آتی تھی اور یہ بھی کہ دونوں سلامت ذہن اور استقامت طبع سے معرا و مبرّا تھے؟ غالب مبالغہ اور اغرا ق سے دور رہتے ہیں اور زمین و آسمان کے قُلابے ملانے سے پرہیز کرتے ہیں۔ آپ سب جانتے ہیں کہ غالب مبالغے کا بادشاہ ہے، غلو اور اغراق سے ان کی غزلیہ شاعری بھری پڑی ہے۔ پھر جہاں قصیدے میں ان عوامل کی ضرورت ہوتی ہے وہاں غالب کا ذہن سُست روی کا شکار کیوں ہوجاتا ہے؟ اسے تسلیم کرلینا چاہیے کہ یہ غالب کا عجز ہے جس پر حالی خواہ مخواہ پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ورنہ تو حالی کو خود بھی پتہ تھا کہ غالب کی فطرت شعری میں کیا کچھ ہے۔ اسی کتاب میں آگے راست گفتاری کے ذیل میں حالی لکھتے ہیں:

حالاں کہ ایشیائی شاعری جس کی بنیاد جھوٹ اور مبالغے پر رکھی گئی ہے مرزا کی رگ و پے میں سرایت کرگئی تھی باوجود اس کے وہ روایت اور حکایت اور وعدہ وا قرار اور بات چیت میں نہایت راست گفتار اور صادق اللہجہ تھے۔‘‘

(یادگارِ غالب، ص79,80)

لیکن، حالی نے جس خوبی کے ساتھ اور جس تجزیاتی انداز میں اپنی بات رکھی ہے، وہ قارئین کو قائل بھی کرسکتی ہے۔ حالی کی خوبی یہی ہے کہ وہ بڑی آسانی سے جرح بھی کرتے جاتے ہیں اور اپنی نثر کو ٹھوس اور پُرخلوص آرا سے پُراثر بنا دیتے ہیں۔ حالی نے اپنی نثر میں یہ انداز و اسلوب اپنے خون جگر اور خاص علمی میلان سے پیدا کیا ہے۔ آپ ایک دم سے ان کی کسی رائے کو القط نہیں کرسکتے۔ یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جس موضوع پر لکھتے ہیں اس پر بحیثیت ایک قاری کے بھی سوچتے ہیں، اسی لیے قاری کے من میں اٹھنے والے سوال کا جواب بھی کہیں نہ کہیں متن میں پوشیدہ ہوتا ہے۔

یہاں مولوی عبدالحق کا ایک اقتباس پیش کرنا بے جا نہ ہوگا، لکھتے ہیں:

’’اُن کی نثر نہایت جچی تُلی اور متین ہوتی ہے۔ ان میں ضبط اور اعتدال ایسا ہے جو بڑی مشکل سے نصیب ہوتا ہے اور صرف بڑے بڑے اساتذہ ہی اس پر قادر ہوسکتے ہیں… مولانا حالی اس وقت تک کبھی کچھ نہیں کہتے جب تک کہ انھیں کسی بات کے کہنے یا خیال کے ظاہر کرنے کی حقیقی ضرورت پیش نہیں آتی اور جو کہتے ہیں ایسی کہ دل میں اتر جائے۔‘‘

(دیباچہ از مولوی عبدالحق، مقالات حالی حصہ اوّل، انجمن ترقی اردو 1943، دہلی)

مرزا غالب کسی کے شعر پر آسانی سے داد نہیں دیا کرتے تھے۔ لیکن اگر کوئی شعر دل کو چھو جاتا تو دیر تک سنتے رہتے، پڑھتے رہتے اور سردُھنتے رہتے۔ سودا، ذوق، مومن اور داغ کا ایک ایک شعر حالی نے نقل کیا ہے۔ ان شعروں پر مرزا غالب وجد کرتے تھے: اشعار سنیے:

دکھلائیے لے جا کے تجھے حسن کا بازار

لیکن کوئی خواہاں نہیں واں جنسِ گراں کا

سودا

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

ذوق

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

مومن

رُخِ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں

اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا اِدھر پروانہ آتا ہے

داغ

سودا کے شعر کے دوسرے مصرع میں ’جنس گراں‘ اور حسن کے بازار کی مناسبت سے خواہاں کے بجائے خریدار کا محل تھا۔ داغ کے دوسرے مصرعے میں تعقید لفظی ہے۔ اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا اِدھر پروانہ آتا ہے۔ آپ غور کرسکتے ہیں کہ اس کا کردار یا فاعل ’پروانہ‘ کہاں ہوتا تو بہتر ہوتا۔ البتہ اس تعقید کے باوجود شعر میں برجستگی نے حسن پیدا کردیا ہے۔ یوں بھی ذاتی پسند کا معاملہ بالکل جداگانہ ہوتا ہے، اسے عمومی قرأت کا حاصل قرار نہیں دیا جاسکتا، خواہ وہ غالب جیسے نابغہ ہی کا پسندیدہ شعر کیوں نہ ہو۔

حالی چوں کہ غالب کی زندگی اور اس کے شب و روز کو رقم کررہے تھے، لہٰذا ان کی زندگی کے اہم واقعات بھی اسی طرح کے ہیں، یعنی خالص علمی اور شاعری سے متعلق۔ مرزا دوسروں کے کلام کی تقریظ بھی لکھا کرتے تھے۔ چوں کہ مرزا کی اپنی ترجیحات بھی تھیں اور وہ کسی کو ناراض کرنا بھی نہیں چاہتے تھے، لہٰذا حالی نے لکھا ہے کہ تقریظ کا بہت سا حصہ تمہید میں، مصنف کی ذات اور اس کے اخلاق یا پھر دوسری لطیف اور پاکیزہ باتوں کے ذکر میں ختم ہوجاتا تھا، اور پھر آخر میں کتاب کے حوالے سے چند جملے لکھ دیا کرتے تھے۔ اس لیے کبھی کبھی احباب مرزا سے اس کی شکایت بھی کیا کرتے تھے۔ یہ واقعہ تو سب نے سنا اور پڑھا ہوگا کہ سرسید نے جب ابوالفضل کی ’آئین اکبری‘ کی تصحیح  وتدوین کی تو بہت سے لوگوں نے نثری تقریظیں لکھیں۔ غالب نے بھی منظوم تقریظ لکھی، لیکن چوں کہ اس میں تنقیص کا پہلو تھا، اس لیے سرسید نے اپنی تصحیح کردہ آئین اکبری میں اسے شامل نہیں کیا۔ اس کی وجہ حالی نے یہ بتائی ہے کہ ’’چوں کہ مرزا ابوالفضل کی طرزِ تحریر کو پسند نہیں کرتے تھے اور تاریخ کا مذاق جیسا کہ خود انھوں نے اعتراف کیا  ہے، بالکل نہ رکھتے تھے اس لیے آئین اکبری کی تصحیح کو انھوں نے ایک فضول کام سمجھا۔‘‘ (یادگارِ غالب، ص 76)

یہاں بھی حالی نے یہ لکھ کر کہ غالب کو تاریخ کا مذاق نہیں تھا، اس لیے انھوں نے’آئین اکبری‘ کے کام کو لائق اعتنا نہیں سمجھا، غالب کا دفاع کیا ہے۔ حالاں کہ اصل وجہ وہی معلوم ہوتی ہے کہ غالب ابوالفضل کی طرزِ تحریر کو پسند نہیں کرتے تھے۔

یہاں البتہ غور طلب امر یہ ہے کہ سرسید جیسی شخصیت کے کام کو نہ سراہنا اور غالب کا اپنے سچے جذبات کو بے ریا پیش کردینا، غالب کی حق گوئی اور حق پسندی کو ظاہر کرتا ہے۔ حالی نے ان کی حق پسندی کے حوالے سے دو تین مثالیں بھی پیش کی ہیں۔ اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ وہ دوسروں کی باتوں پر غور و فکر کرتے تھے اور اپنی غلطیاں تسلیم بھی کرلیتے تھے۔ حالی نے غالب کی مثنوی ’درد و داغ‘ کے ایک مصرعے میں ناطق مکرانی کی اصلاح قبول کی۔ اس طرح ایک فارسی قصیدے کی تشبیب کا یہ شعر ہے:

ہم چناں در تتقِ عیب ثبوتے دارند

بوجودے کہ ندارند زخارج اعیاں

اس میں غالب نے پہلے ’ثبوتے‘ کی جگہ ’نمودے‘ لکھا تھا، مولوی فضل حق نے بتایا کہ اعیان ثابتہ کے لیے نمود کا لفظ مناسب نہیں، لہٰذا غالب نے طبع ثانی میں اسے بدل کر ثبوتے کردیا۔ حالی ان حوالوں کے بعد لکھتے ہیں:

’’ان باتوں کے بیان کرنے سے مرزا کی لغزشیں خلقت کو دکھانی مقصود نہیں ہیں، بلکہ انصاف اور حق پسندی کی شریف خصلت اور وہ ملکہ جس کے بغیر انسان کبھی ترقی نہیں کرسکتا، مرزا کی ذات میں دکھانا مقصود ہے۔‘‘ (یادگارِ غالب، ص 79)

حالی نے مرزا غالب کی زندگی اور ان کی شعری و نثری نگارشات کا گہرائی سے مشاہدہ و مطالعہ کیا تھا، اس سے قطع نظر کہ حالی کو مرزا سے یک گونہ عقیدت و محبت بھی تھی۔ یوں بھی عمر کے لحاظ سے حالی سے غالب چالیس برس بڑے تھے۔ بلکہ دونوں کی ملاقات اس وقت ہوئی جب مرزا اپنے بڑھاپے میں تھے اور حالی اپنی جوانی میں۔

’یادگارِ غالب‘ میں حالی نے جہاں حق پسندی اور راست گوئی کا ذکر کیا ہے وہیں مرزا کی خوبی کا ذکر ان لفظوں میں کیا ہے:

’’مرزا کی اسی راست بازی کا سبب تھا کہ وہ کوئی کام چھپا کر نہیں کرتے تھے۔ جو دل میں تھا وہی زبان پر تھا۔ جو خلوت میں کرتے تھے وہی جلوت میں بھی کرتے تھے۔ بس اگر ان میں کوئی عیب تھا تو وہی تھا جس کو ہر کس و ناکس جانتا تھا؛ مخفی عیبوں سے وہ بالکل پاک تھے۔‘‘ (یادگارِ غالب، ص 81)

حالی نے جس طرح غالب کی شخصیت کے نمایاں پہلوؤں اور بالخصوص مثبت پہلوؤں کو پیش کیا ہے، اسی طرح جگہ جگہ ان کی علمی اور تخلیقی خوبیوں کو بھی نشان زد اور روشن کرنے کی کوشش کی ہے۔ غالب کو اپنے عہد میں اپنی ناقدری کا احساس بھی تھا، جس کا ذکر گاہے گاہے مرزا خود بھی کرتے رہے ہیں۔

حالی نے ’مہر نیم روز‘ سے یہاں ایک فارسی اقتباس نقل کیا ہے۔ اسی طرح جب کوئی سخن فہم مل جاتا تو اس کی تعریف بھی بہت کرتے تھے۔ اسی طرح کے ایک سخن فہم منشی نبی بخش حقیر کا ذکر کیا ہے جن کی سخن فہمی اور سخن سنجی کی شہرت تھی۔ حالی نے اسی حوالے سے منشی ہرگوپال تفتہ کو لکھے گئے غالب کے ایک فارسی خط کا ماحصل پیش کیا ہے جو دل چسپی سے خالی نہیں۔ یہ طویل اقتباس ہے، لیکن یہاں چند منتخب جملے درج کیے جاتے ہیں:

خدا نے میری بے کسی اور تنہائی پر رحم کیا اور ایسے شخص کو میرے پاس بھیجا جو میرے زخموں کا مرہم اور میرے درد کا درمان اپنے ساتھ لایا۔ میں حیران ہوں کہ اس فرزانۂ یگانہ یعنی منشی نبی بخش کو کس درجے کی سخن فہمی اور سخن سنجی عنایت ہوئی ہے! حالانکہ میں شعر کہتا ہوں اور شعر کہنا جانتا ہوں، مگر جب تک میں نے اس بزرگوار کو نہیں دیکھا، یہ نہیں سمجھا کہ سخن فہمی کیا چیز ہے اور سخن فہم کس کو کہتے ہیں!‘‘                                                     (یادگارِ غالب، ص 81)

یہاں اگر فارسی متن بھی لکھا جاتا تو بہتر ہوتا۔ پھر یہ کہ حالی نے اسے خط کا ’ماحصل‘ کہا ہے، اس لیے یہاں اصل متن کا ہونا اور بھی ضروری ہوجاتا ہے۔ فارسی خط کے اردو ترجمے میں غالب کے اسلوب نگارش کو قائم رکھنے کی پوری کوشش کی گئی ہے۔ لہٰذا حالی کو اس عبارت آرائی اور برجستہ ترجمے کے لیے بھی داد دینی چاہیے۔

’یادگارِ غالب‘ کے پہلے حصے کے آخری دو چار صفحات میں حالی نے مرثیہ لکھنے کی فرمائش پر عجز کے اظہار، ہجو لکھنے سے انکار، ایک امیر کی شان میں قصیدہ لکھنے کا بیان، خانگی تعلقات، موت کی آرزو، اخیر عمر کی حالت، مرض الموت، تاریخ وفات، جنازے کی نماز، شاگردوں کا ذکر کیا ہے اور بالکل اخیر میں نواب ضیاء الدین محمد خاں سے مرزا کی قربت اور ان کی شان میں لکھے گئے قصیدے کے چند اشعار پیش کیے گئے ہیں۔ نواب محمد مصطفیٰ خاں شیفتہ اور ان کی شان میں بھی لکھے گئے ایک فارسی قصیدے کے چند اشعار درج کیے گئے ہیں۔

آئیے اب ’یادگارِ غالب‘ کے دوسرے حصے پر ایک نظر ڈالتے ہیں جس میں حالی نے مرزا کے کلام پر ریویو کیا ہے اور چند منتخب اشعار کے معانی و مفاہیم بیان کیے ہیں۔ اگر تنقیدی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو حالی کی اس کوشش کو غالب تنقید کے باب میں اولیت کا درجہ حاصل ہے۔ حالی نے اس حصے میں غالب کے کچھ فارسی زدہ مشکل اشعار بھی شروع میں پیش کردیے ہیں تاکہ قارئین کو بلاوجہ تنقید کرنے کا موقع نہ مل جائے۔ یہاں وہ سات اشعار پیش کیے گئے ہیں جو دیوان غالب میں شامل نہیں۔ حالی نے ان شعروں کے طرز بیان کو اردو بول چال کے خلاف کہا ہے اور یہ بھی کہ ان میں پیش کردہ خیالات میں بھی کوئی لطافت نہیں۔ اس کے علاوہ بھی حالی نے لکھا ہے کہ اب بھی اردو دیوان میں ایک ثـلث (تہائی) کےقریبایسےاشعارموجودہیںجنپراردوزبانکااطلاقمشکلسےہوسکتاہے۔یہاںبھیپانچاشعاربطورمثالکےدرجکیےگئےہیں۔آئیےدوشعرمتروککلامسےاوردومتداولدیوانسےملاحظہ کرلیجیے:

بہ حسرت گاہِ نازِ کُشتۂ جاں بخشیِ خوباں

خضر کو چشمۂ آب بقا سے ترجبیں پایا

موسم گُل میں مئے گلگوں حلالِ میکشاں

عقدِ وصلِ دختِ رز انگور کا ہردانہ تھا

——

شمار سُبحہ مرغوب بُتِ مشکل پسند آیا

تماشائے بیک کف بُردنِ صد دل پسند آیا

شب، خمارِ چشم ساقی رستخیز اندازہ تھا

تا محیطِ بادہ صورت خانۂ خمیازہ تھا

لیکن حالی کا کمال اور ان کی عقیدت اس درجہ کو پہنچی ہوئی تھی کہ اس مشکل پسندی میں بھی خوبی کا پہلو ڈھونڈ نکالا۔ لکھتے ہیں:

’’ان اشعار کو مہمل کہو یا بے معنی، مگر اس میں شک نہیں کہ مرزا نے وہ نہایت جانکاہی اور جگرکاوی سے سرانجام کیے ہوں گے۔ جبکہ اپنے معمولی اشعار کاٹتے ہوئے لوگوں کا دل دُکھتا ہے، تو مرزا کا دل اپنے اشعار نظری کرتے ہوئے کیوں نہ دکھا ہوگا۔‘‘                               (یادگارِ غالب، ص 100)

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ غالب نے اپنے اس نوع کے اشعار دیوان سے خارج کرکے بڑے ہی حوصلے کا کام کیا۔ حالی نے غالب کے اجتہادی اقدام کا دفاع جگہ جگہ کیا ہے۔ غالب نے شروع میں فارسی کے مصادر، فارسی کے حروفِ ربط اور توابعِ فعل کا استعمال خوب کیا۔ حالی نے لکھا ہے کہ اکثر اشعار ایسے ہوتے تھے کہ اگر ان میں ایک لفظ بدل دیا جائے تو سارا شعر فارسی زبان کا ہوجائے، (یادگارِ غالب، ص 103)۔ ساتھ ہی حالی نے یہ بھی کہا ہے کہ اس میں شک نہیں کہ اس سے ان کی اورجینیلٹی اور غیرمعمولی اُپج کا خاطرخواہ سراغ  ملتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’وہ جس عام روش پر اپنے ہم فنوں کو چلتادیکھتے ہیں اس پر چلنے سے اُن کی طبیعت اِبا کرتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ جو طریق مسلوک وہ اختیار کریں وہ منزل مقصود تک پہنچانے والا نہ ہو؛ مگر یہ ممکن نہیں کہ جب تک وہ دائیں بائیں چل پھر کر طبیعت کی جولانیاں نہ دیکھ لیں اور تھک کر چوٗر نہ ہوجائیں، عام رہگیروں کی طرح آنکھیں بند کرکے شارع عام پر پڑجائیں۔‘‘ (یادگارِ غالب، ص 104)

حالی نے غالب کی مشکل پسندی اور روش عام سے ہٹ کر زندگی اور موت کے حوالے سے بھی یہاں ذکر کیا ہے۔ دو لطیفے بھی پیش کیے گئے ہیں۔ یہاں اس پر گفتگو بے سود ہے۔ البتہ حالی نے جہاں قوت متخیلہ اور قوت ممیزہ کا ذکر کیا ہے، جو بامعنی، بحث انگیز اور توجہ طلب ہے۔ لکھتے ہیں:

’’بہرحال مرزا ایک مدت کے بعد اپنی بے راہ روی سے خبردار ہوئے اور استقامتِ طبع اور سلامتی ذہن نے ان کو راہ راست پر ڈالے بغیر نہ چھوڑا۔ گو ان کا ابتدائی کلام جس کو وہ حد سے زیادہ جگرکاوی اور دماغ سوزی سے سرانجام کرتے تھے، مقبول نہ ہوا؛ مگر چوں کہ قوت متخیلہ سے بہت زیادہ کام لیا گیا تھا اور اس لیے  اس میں ایک غیرمعمولی بلند پروازی پیدا ہوگئی تھی، جب قوت ممیزہ نے اس کی باگ اپنے قبضے میں لی تو اس نے وہ جوہر نکالے جو کسی کے وہم و گمان میں نہ تھے۔‘‘ (یادگارِ غالب، ص 105)

حالی نے آگے چل کر غالب کے چند منتخب اشعار کی تشریح و تعبیر پیش کی ہے۔ غالب کے چند ایسے اشعار حالی نے منتخب کیے ہیں جن سے ان کے خیالات کا اچھوتا پن ثابت ہوتا ہے۔ اس کی توضیح اور توثیق کے لیے حالی نے چند عنوانات بھی قائم کیے ہیں۔ ان میں موضوعات کے طور پر اخلاق، فطرتِ انسانی، عاشقانہ، شوخی، شکایت اہل وطن، وفاداری، تصوف جیسے موضوعات کو پیش کرنے والے اشعار کی تشریح و تعبیر پیش کی ہے۔ اس کے علاوہ طرز ادا، استعارہ و کنایہ اور تمثیل کا استعمال، کلام میں پہلوداری، مبتذل تشبیہات سے احتراز غالب کے کلام کی ان خصوصیتوں کا ذکر اشعار کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ غالب نے اشعار میں طرفگی اور نزاکتوں کا ذکر کرتے ہوئے اشعار بھی پیش کیے ہیں۔ غالب کی بہت سی شرحیں لکھی گئی ہیں لیکن حالی نے جو تعبیریں پیش کی ہیں وہ اپنی جگہ اٹل ہیں۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ تمام شرحوں کے لیے حالی کی مذکورہ شرح نے مشعل راہ کا کام کیا ہے۔

ضروری ہے کہ قوت متخیلہ اور قوت ممیزہ پر ذرا توقف اور غور و فکر کرلیا جائے۔ کیوں کہ حالی کا یہ تنقیدی بلکہ عالمانہ بیان صرف غالب ہی کی شاعری کے لیے نہیں، بلکہ پوری اردو شاعری کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ حالی نے ’یادگارِ غالب‘ سے تقریباً پانچ برس پہلے مقدمہ شعر و شاعری میں اس پر اظہارِ خیال کیا تھا۔ آئیے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:

’’قوت متخیلہ ہمیشہ خلاقی اور بلندپروازی کی طرف مائل رہتی ہے مگر قوتِ ممیزہ اس کی پرواز کو محدود کرتی ہے، اس کی خلاقی کی مزاحم ہوتی ہے۔ قوت متخیلہ کیسی ہی دلیر اور بلند پرواز ہو جب تک کہ وہ قوت ممیزہ کی محکوم ہے شاعری کو اس سے کچھ نقصان نہیں پہنچتا بلکہ جس قدر اس کی پرواز بلند ہوگی اسی قدر شاعری اعلا درجہ کو پہنچے گی… مگر دوسری صورت میں جبکہ تخیل قوت ممیزہ پر غالب آجائے شاعر کے لیے اس کی پرواز ایسی ہی خطرناک ہے جیسے سوار کے لیے نہایت چالاک گھوڑا جس کے منہ میں لگام نہ ہو۔‘‘

(مقدمہ شعر و شاعری، اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، ص 54)

ممیزہ کو موٹے طور پر تمیز کہہ سکتے ہیں۔ خیال کی بلندپروازی کو نکیل دینے میں اسی قوتِ تمیز کا کردار ہوتا ہے۔ اگر صرف بلند پروازی آگئی اور پرواز پر کنٹرول جاتا رہا تو ظاہرہے کہ حشر کچھ بہت اچھا ہونے والا نہیں۔ حالی نے تمام تر مباحث میں یہ ایک ایسی بنیادی بات کہہ دی ہے کہ اس کی اطلاقی صورت میں کسی طرح کا اشتباہ پیدا نہیں ہوتا۔ بلاشبہ غالب کا شروع کا کلام ’قوت متخیلہ‘ کے دام میں اسیر نظر آتا ہے، لیکن جب معاصرین کی تنقید اور خردہ گیری شروع ہوئی تو غالب نے اپنے کلام پر غور و فکر کرنا شروع کردیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے اندر جو قوت ممیزہ Dormant حالت میں تھی، وہ اُبھر کر اوپر آگئی جس سے متخیلہ کو لگام لگا اور پھر ایک اعتدال کی صورت پیدا ہوئی۔ اس قوت متخیلہ کی بے لگام پرواز کو مولوی فضل حق سے مرزا کی راہ و رسم سے بھی لگام لگا۔ حالی نے یہ حوالہ بھی دیا ہے کہ میرتقی میر نے غالب کے لڑکپن کے اشعار سن کر کہا تھا کہ اگر اس لڑکے کو کوئی کامل استاد مل گیا اور اس نے اس کو سیدھے راستے پر ڈال دیا تو لاجواب شاعر بن جائے گا ورنہ مہمل بکنے لگے گا۔ (یادگارِ غالب، ص 123)

حالی نے اپنی تنقیدی رائے سے یہ ثابت کرنے کی کامیاب اور منطقی کوشش کی ہے کہ غالب لاجواب شاعر بن کر اُبھرے جیسا کہ میرتقی میر نے پیش گوئی کی تھی۔ حالی نے اس حصے میں غالب کے کم و بیش 66-67 اشعار پیش کرکے ان کی تفہیم و تعبیر پیش کی ہے۔ کبھی شعر کی تشریح، کبھی صرف معنی اور کچھ مفہوم پیش کیا ہے۔ کبھی مختلف خصوصیات کے ذیل میں مثال کے طور پر اشعار پیش کیے گئے ہیں۔ عاشقانہ مضامین، تصوف کے مضامین، شوخی و ظرافت کا انداز، توحید، شکوۂ چرخ، انسان کی مجبوری، رندی و زاہدی، رشک و رقابت، یاس و ناامیدی، شکوۂ ناقدری، صبر و قناعت جیسے موضوعات کے ذیل میں حالی نے غالب کے منتخب اشعار پیش کیے ہیں۔ آگے چل کر چھ (6) قطعات اور سات رباعیات بھی ملتی ہیں۔ ’خاتمہ‘ سے پہلے حالی نے غالب کی نثر اردو پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ حالی کے مطابق (قطعی نہیں بلکہ غالباً) غالب نے 1850 کے بعد اردو میں خط لکھنا شروع کیا ہوگا۔ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ مرزا کی عام شہرت ہندوستان میں جس قدر ان کی اردو نثر کی اشاعت سے ہوئی ہے ویسی نظم اردو اور نظم فارسی اور نثر فارسی سے نہیں ہوئی۔ (یادگارِ غالب، ص 156)

حالی نے مرزا کے اردو خطوط کی برجستگی اور سادہ بیانی اور رواں عبارت آرائی کا ذکرخصوصی طور پر کیا ہے۔ جگہ جگہ مثالیں پیش کی ہیں۔ ان کے دیباچوں اور تقریظوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ یہ بھی لکھا ہے کہ جو بے تکلفی اور صفائی مرزا کے اردو خطوں میں پائی جاتی ہے وہ ان تقریظوں اور دیباچوں میں نہیں ہے۔ خصوصی طور پر حالی نے مفتی میرلال کی کتاب ’سراج المعرفہ‘ پر لکھی گئی غالب کی تقریظ کا حوالہ پیش کیا ہے اور بڑی تعریف کی ہے۔ لکھتے ہیں:

’’وہ دیباچہ جو انھوں نے مفتی میرلال صاحب کی کتاب ’سراج المعرفہ‘ پر لکھا ہے اس میں جس خوبی اور متانت سے تصوف کے اعلا خیالات ظاہر کیے ہیں اس کے لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ اردو زبان میں تصوف کے اعلا خیالات نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد ایسی عمدہ نثر میں کسی نے لکھے۔‘‘                           (یادگارِ غالب، ص 172)

اوپر، اب تک اور یہاں تک ’یادگارِ غالب‘ کی قرأت اور اس کی روشنی میں جو بھی گفتگو میں نے کی، اگر مزید بحث و تمحیص اور جزیات نگاری سے کام لیا جائے تو یہ تحریر طویل ہوجائے گی۔ اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ حالی نے اس کتاب میں مرزا غالب کی زندگی اور شخصیت دونوں کو نہایت ہی سہل انداز میں، رواں اور متین لہجے کے ساتھ پیش کیا ہے۔ غالب کی شخصیت کی مناسبت سے 47 لطیفے بھی اپنے اسلوب نگارش میں کھپانے کی کوشش کی ہے۔ یہ لطیفے ان کے اسلوب کو بھی شگفتگی عطا کرتے ہیں اور غالب کی شخصیت کو ابھارنے اور نکھارنے کا کام بھی کرتے ہیں۔ کچھ محققوں نے واقعات اور حقائق نیز سنین اور تاریخوں کے حوالے سے حالی کے تسامحات کا ذکر کیا ہے، میرے خیال سے یہ کام حالی نے محققوں کے لیے چھوڑ دیا ہے تاکہ وہ اپنی پِتّہ ماری کا کام جاری رکھ سکیں اور حواشی اور فٹ نوٹس سے ’یادگارِ غالب‘ کی ضخامت میں اضافہ کرسکیں۔ حالی کو تو غالب کی شخصیت اور آدابِ زندگی سے مطلب تھا،  وہ انھوں نے کردکھایا۔ اسی طرح حالی نے دوسرے حصے میں غالب کی شعری عظمت بھی ان کے چند اشعار کی روشنی میں ہمارے سامنے پیش کی ہے۔کچھ نقادوں نے کہا کہ شاعری اور غزل کے حوالے سے حالی نے مقدمۂ شعر و شاعری میں جو اصول وضع کیے تھے، ’یادگارِ غالب‘ میں غالب کی شعری عظمت واضح کرنے کے لیے ان اصولو ںکا اطلاق نہیں کیا۔ حالی سے یہ بے جا توقع کی جاتی ہے۔  اگر ’یادگارِ غالب‘ کو ایک شعر میں دیکھنا ہو تو حالی کے ’مرثیۂ غالب‘ کا یہ شعر سنیے:

ایک روشن دماغ تھا، نہ رہا

شہر میں اک چراغ تھا، نہ رہا

Related posts

Leave a Comment