مرزا غالب ۔۔۔ کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں

کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں آج ہم اپنی پریشانیٔ خاطر ان سے کہنے جاتے تو ہیں پر دیکھیے کیا کہتے ہیں اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو جو مے و نغمہ کو اندوہ ربا کہتے ہیں دل میں آ جاے ہے ہوتی ہے جو فرصت غش سے اور پھر کون سے نالے کو رسا کہتے ہیں ہے پرے سرحدِ ادراک سے اپنا مسجود قبلے کو اہلِ نظر قبلہ نما کہتے ہیں…

Read More

مرزا غالب ۔۔۔۔ حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچھا ہے

حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچھا ہے اس سے میرا مہہ خورشید جمال اچھا ہے بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچھا ہے اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا ساغرِ جم سے مرا جامِ سفال اچھا ہے بے طلب دیں تو مزا اس میں سوا ملتا ہے وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال اچھا ہے ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا…

Read More

مرزا اسداللہ خاں غالب ۔۔۔ غزل

بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا رکھیو یارب یہ درِ گنجینۂ گوہر کھلا شب ہوئی، پھر انجمِ رخشندہ کا منظر کھلا اِس تکلف سے کہ گویا بتکدے کا در کھلا گرچہ ہوں دیوانہ، پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب آستیں میں دشنہ پنہاں ، ہاتھ میں نشتر کھلا گو نہ سمجھوں اس کی باتیں ، گونہ پاؤں اس کا بھید پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا ہے خیالِ حُسن میں حُسنِ عمل کا سا خیال خلد کا اک در ہے میری گور کے…

Read More

اسداللہ خاں غالب ۔۔۔ کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا

کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا دل کہاں کہ گم کیجے؟ ہم نے مدعا پایا عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا درد کی دوا پائی، درد بے دوا پایا دوست دارِ دشمن ہے! اعتمادِ دل معلوم آہ بے اثر دیکھی، نالہ نارسا پایا سادگی و پرکاری، بے خودی و ہشیاری حسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا غنچہ پھر لگا کھلنے، آج ہم نے اپنا دل خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا حالِ دل نہیں معلوم، لیکن اس قدر یعنی ہم نے…

Read More

غالب

محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا

Read More

غالب

نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا حبابِ موجۂ رفتار ہے نقشِ قدم میرا

Read More

اسداللہ خاں غالب ۔۔۔ شوق، ہر رنگ رقیبِ سروساماں نکلا

شوق، ہر رنگ رقیبِ سروساماں نکلا قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا زخم نے داد نہ دی تنگئ دل کی یارب! تیر بھی سینۂ بسمل سے پَرافشاں نکلا بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا دلِ حسرت زدہ تھا مائدۂ لذتِ درد کام یاروں کا بہ قدرٕ لب و دنداں نکلا اے نو آموزِ فنا ہمتِ دشوار پسند! سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آساں نکلا شوخئِ رنگِ حنا خونِ وفا سے کب تک آخر اے عہد شکن! تو…

Read More

اسداللہ خاں غالب ۔۔۔ دل مرا سوز ِنہاں سے بے محابا جل گیا

دل مرا سوز ِنہاں سے بے محابا جل گیا آتش خاموش کی مانند گویا جل گیا دل میں ذوقِ وصل و یادِ یار تک باقی نہیں آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا میں عدم سے بھی پرے ہوں، ورنہ غافل! بارہا میری آہِ آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا عرض کیجے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں؟ کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا دل نہیں، تجھ کو دکھاتا ورنہ داغوں کی بہار اِس چراغاں کا کروں کیا کارفرما جل گیا میں ہوں…

Read More

اسداللہ خاں غالب

ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یا رب ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا

Read More

غالب

بقدرِ ظرف ہے ساقی! خمارِ تشنہ کامی بھی جوتو دریائے مے ہے، تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا

Read More