رخسانہ صبا … چشمِ فردا کے لیے اور تو کیا لائی ہوں میں

چشمِ فردا کے لیے اور تو کیا لائی ہوں میں ہجر کا لمحہِ سفاک اٹھالائی ہوں میں میری آنکھوں میں جو بھردی تھی تری قربت نے بس اسی ریت سے اک دشت بنا لائی ہوں میں جانتی تھی کہ کھلیں گے نہ کبھی بند کواڑ رایگانی کے لیے اپنی صدا لائی ہوں میں کوزہ گر خود مری شوریدہ سری میں گم ہے اپنی مٹی کے لیے چاک نیا لائی ہوں میں تو یہ سمجھا کہ مجھے تیری طلب ہے لیکن تیرے ہونٹوں کے لیے حرف دعا لائی ہوں میں جس…

Read More

رخسانہ صبا

سنا ہے اہلِ دل نایاب ہوتے جارہے ہیں سو ہم بھی رفتہ رفتہ خواب ہوتے جارہے ہیں

Read More