سجاد حسین ساجد ۔۔۔ وجودِ ذات میں روشن جہان کیسے لگے

وجودِ ذات میں روشن جہان کیسے لگے مکاں میں رہتے ہوے لا مکان کیسے لگے سجا کے آنکھ میں لاشے حسین خوابوں کے وفا کے لٹتے ہوے کاروان کیسے لگے میں ممکنات سے لمحے چرا کے لایا ہوں جو درد تونے کیے مجھ کو دان، کیسے لگے لطیف وقت تھا جو تیرے ساتھ بیت گیا جو ٹوٹے ہجرکے پھر آسمان، کیسے لگے تجھے کہا تھا: محبت فریب دیتی ہے سجائے عشق کے دل پر نشان، کیسے لگے ہوا کے زور سے گر تو گئے درخت‘ مگر پرندے پھرتے ہوے بے…

Read More

سجاد حسین ساجد ۔۔۔ وجودِ شب پہ کوئی آن بان چھوڑ گیا

وجودِ شب پہ کوئی آن بان چھوڑ گیا اجاڑ بستی میں جلتا مکان چھوڑ گیا خوداپنی سوچ بھی مجھ کو پرائی لگنے لگی وہ میرے دھیان میں ایسا گمان چھوڑ گیا ہوائے جبر نہ بدلی کبھی زمانے میں ضمیر، عدل کا خستہ مکان چھوڑ گیا ستم ظریف مسا فر وفا کی منزل کا انا کے دوش پہ الجھی تکان چھوڑ گیا کمال فن تھا جسے یاریاں نبھانے میں وجودِ ہست کی تنہا دکان چھوڑ گیا یہ کون لوگ ہیں جو ہار کر بھی جیتے ہیں سوال، ذہن میں اک داستان…

Read More

سجاد حسین ساجد ۔۔۔ سکوت جب بھی کسی شور میں بدلتا ہے

سکوت جب بھی کسی شور میں بدلتا ہے مہیب چپ میں کوئی سانحہ پنپتا ہے حنائی ہاتھ کہاں پھر دعائی رہتے ہیں انا کی کوکھ سے اک حادثہ نکلتا ہے وفا شناس مروّت میں مارے جاتے ہیں خمار ضبط کا رسوائیوں سے ڈرتا ہے محل میں شاہ کے کیسے سکون آئے گا جہاں غریب کی خواہش کا خوں نچڑتا ہے سکونِ دل کو ترے آستاں پہ آتا ہوں یہ دل ہے، دل پہ بھلا کس کا زور چلتا ہے وہ کل تھا خوش جسے ساجد گرا کے نظروں سے اسی…

Read More