سجاد حسین ساجد ۔۔۔ وجودِ ذات میں روشن جہان کیسے لگے

وجودِ ذات میں روشن جہان کیسے لگے
مکاں میں رہتے ہوے لا مکان کیسے لگے

سجا کے آنکھ میں لاشے حسین خوابوں کے
وفا کے لٹتے ہوے کاروان کیسے لگے

میں ممکنات سے لمحے چرا کے لایا ہوں
جو درد تونے کیے مجھ کو دان، کیسے لگے

لطیف وقت تھا جو تیرے ساتھ بیت گیا
جو ٹوٹے ہجرکے پھر آسمان، کیسے لگے

تجھے کہا تھا: محبت فریب دیتی ہے
سجائے عشق کے دل پر نشان، کیسے لگے

ہوا کے زور سے گر تو گئے درخت‘ مگر
پرندے پھرتے ہوے بے امان، کیسے لگے

وفائیں بکنے لگیں زر کے کارخانوں میں
اَنا کے جلتے ہوے سائبان کیسے لگے

تمھاری یاد ہے، ساجد ہے اور تنہائی
جو تونے مجھ سے لیے امتحان کیسے لگے

Related posts

Leave a Comment