سید آلِ احمد ۔۔۔ اے مرے پیارے سپاہی!

سید آلِ احمد

اے مرے پیارے سپاہی!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے مرے پیارے سپاہی! مرے جوشیلے جواں!
میری دھرتی کے محافظ! مرے انمول سپوت!
میرے خوابوں، مرے جذبے کے تقدس کے امیں!
تو نے بدلا ہے مرے دیس کی مٹی کا مزاج
میں ترے واسطے لایا ہوں عقیدت کا خراج
۔۔
ایک لمحہ کو مری قوم پہ بجلی بن کر
ایسے آیا تھا کہ جیسے ہوں خزاں کا موسم
سرخ پھولوں کی مہکتی ہوئی خوشبو کا حریف
سبز پتوں سے لہکتی ہوئی شاخوں کے خلاف
چہچہاتی ہوئی چڑیوں کی خوشی کا قاتل
ایک لمحہ یہ صدی سے بھی بہت بھاری تھا
میرے احساس کی شہ رگ سے لہو جاری تھا
۔۔
میری خوشیوں سے بھرے گھر کے حسیں آنگن میں
چند لمحوں کے لیے زرد کسیلا سا دھواں
میرے احساس کی سچائی مٹانے کے لیے
میرے جذبات کا ہر پھول جلانے کے لیے
سبز پتوں کی لطافت کا مخالف ہو کر
پوری طاقت سے ہر اک سمت مسلط سا ہوا
۔۔
جب مری ماں، مری دھرتی پہ کڑا وقت پڑا
اس کڑے وقت میں نظریں تری جانب اٹھیں
کتنی آنکھوں میں ترے واسطے چاہت کے گلاب
اس طرح مہکے کہ ہو جیسے بہاروں کا سماں
کتنے ہونٹوں پہ دعاؤں کے چراغوں کی لویں
ایسے اُبھریں کہ شبِ تار کا کمزور وجود
نرم ٹہنی کی طرح پل میں زمیں بوس ہوا
۔۔
اے مرے پیارے سپاہی! مرے جوشیلے جواں!
تو شجاعت کے تصور کا نگہباں بن کر
تو عزائم کی بلندی کا محافظ بن کر
میرے اس دیس کا ناموس بچانے کے لیے
سر ہتھیلی پہ لیے، ہاتھ میں تلوار لیے
آہنی سِل کی طرح ٹوٹ پڑا دشمن پر
۔۔
اے مرے پیارے سپاہی! مرے جوشیلے جواں!
تو نے محفوظ رکھی میرے وطن کی عزت
تیرے جذبے، تری ہمت، تری طاقت کے طفیل
گھر کے آنگن سے چھٹا زرد کسیلا سا دھواں
میرے جذبات کے ہر پھول پہ سرخی آئی
سبز پتوں کی لطافت بھی ہوئی دوبالا
۔۔
اے مرے پیارے سپاہی! مرے جوشیلے جواں!
میری دھرتی کے محافظ! مرے انمول سپوت!
میرے خوابوں، مرے جذبے کے تقدس کے امیں!
تو نے بدلا ہے مرے دیس کی مٹی کا مزاج
میں ترے واسطے لایا ہوں عقیدت کا خراج
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۹۶۵

Related posts

Leave a Comment