سجاد حسین ساجد ۔۔۔ وجودِ شب پہ کوئی آن بان چھوڑ گیا

وجودِ شب پہ کوئی آن بان چھوڑ گیا
اجاڑ بستی میں جلتا مکان چھوڑ گیا

خوداپنی سوچ بھی مجھ کو پرائی لگنے لگی
وہ میرے دھیان میں ایسا گمان چھوڑ گیا

ہوائے جبر نہ بدلی کبھی زمانے میں

ضمیر، عدل کا خستہ مکان چھوڑ گیا

ستم ظریف مسا فر وفا کی منزل کا
انا کے دوش پہ الجھی تکان چھوڑ گیا

کمال فن تھا جسے یاریاں نبھانے میں
وجودِ ہست کی تنہا دکان چھوڑ گیا

یہ کون لوگ ہیں جو ہار کر بھی جیتے ہیں
سوال، ذہن میں اک داستان چھوڑ گیا

یہ حال بارہا ساجد ہوا غریبی میں
زمیں پرائی ہوئی، آسمان چھوڑ گیا

Related posts

Leave a Comment