سجاد حسین ساجد ۔۔۔ سکوت جب بھی کسی شور میں بدلتا ہے

سکوت جب بھی کسی شور میں بدلتا ہے
مہیب چپ میں کوئی سانحہ پنپتا ہے

حنائی ہاتھ کہاں پھر دعائی رہتے ہیں
انا کی کوکھ سے اک حادثہ نکلتا ہے

وفا شناس مروّت میں مارے جاتے ہیں
خمار ضبط کا رسوائیوں سے ڈرتا ہے

محل میں شاہ کے کیسے سکون آئے گا
جہاں غریب کی خواہش کا خوں نچڑتا ہے

سکونِ دل کو ترے آستاں پہ آتا ہوں
یہ دل ہے، دل پہ بھلا کس کا زور چلتا ہے

وہ کل تھا خوش جسے ساجد گرا کے نظروں سے
اسی سے ترکِ تعلق پہ ہاتھ ملتا ہے

Related posts

Leave a Comment