صدیوں سے اجنبی ……………………. اُس کی قربت میں بیتے سب لمحے میری یادوں کا ایک سرمایہ خوشبوئوں سے بھرا بدن اس کا دل کو بھاتا تھا بانکپن اُس کا شعلہ افروز حسن تھا اُس کا دلکشی کا وہ اک نمونہ تھی مجھ سے جب ہمکلام ہوتی تھی خواہشوں کے چمن میں ہر جانب چاہتوں کے گلاب کھلتے تھے اُس کی قربت میں ایسے لگتا تھا اک پری آسماں سے اتری ہو جب کبھی میں یہ پوچھتا اُس سے ساتھ میرے چلو گی تم کب تک مجھ سے قسمیں اُٹھا کے…
Read MoreTag: کارواں
عمران اعوان
سانس لینا محال ٹھہرا ہے تیری محفل میں لوگ اتنے ہیں
Read Moreیوسف خالد… بھولا ہوا نہیں ہوں بھلایا ہوا ہوں میں
بھولا ہوا نہیں ہوں بھلایا ہوا ہوں میں شاید کسی کہانی میں لکھا ہوا ہوں میں نقشِ قدم ہوا سے مٹائے نہ جا سکے اس طور اِک دیار سے گزرا ہوا ہوں میں مت جان کہ میں ذات کے معبد میں قید ہوں فطرت کی پور پور میں اترا ہوا ہوں میں پھولوں میں کر تلاش مجھے خوشبوؤں میں ڈھونڈ ان وادیوں میں ہی کہیں کھویا ہوا ہوں میں اب تک فضا میں گونجتی ہے اس کی باز گشت اک گیت کی طرح کہیں گایا ہوا ہوں میں منظرسبھی سجے…
Read Moreبانی ۔۔۔ جو زہر ہے مرے اندر وہ دیکھنا چاہوں
جو زہر ہے مرے اندر وہ دیکھنا چاہوں عجب نہیں میں ترا بھی کبھی برا چاہوں میں اپنے پیچھے عجب گرد چھوڑ آیا ہوں مجھے بھی رہ نہ ملے گی جو لوٹنا چاہوں وہ اک اشارۂ زیریں ہزار خوب سہی میں اب صدا کے صِلے میں کوئی صدا چاہوں مرے حروف کے آئینے میں نہ دیکھ مجھے میںٕ اپنی بات کا مفہوم دوسرا چاہوں ق کھُلی ہے دل پہ کچھ اس طرح غم کی بے سببی تری خبر نہ کچھ اپنا ہی اب پتا چاہوں کوئی پہاڑ، نہ دریا، نہ…
Read Moreحفیظ تائب
آپ کیوں ہنسنے لگے ہیں بے طرح میں تو سودائی ہوا پاگل ہوا
Read Moreسید آل احمد ۔۔۔ دل کا شیشہ ٹوٹ گیا آوازے سے
دل کا شیشہ ٹوٹ گیا آوازے سے تیرا پیار بھی کم نکلا اندازے سے تم جو میری بات سنے بن چل دیتے رات لپٹ کر رو دیتا دروازے سے رنجِ سکوں تو ترکِ وفا کا حصہ تھا سوچ کے کتنے پھول کھلے خمیازے سے آنکھیں پیار کی دھوپ سے جھلسی جاتی ہیں روشن ہے اب چہرہ درد کے غازے سے تیرا دُکھ تو ایک لڑی تھا خوشیوں کی تار الگ یہ کس نے کیا شیرازے سے کتنے سموں کے شعلوں پر اک خواب جلے کتنی یادیں سر پھوڑیں دروازے سے…
Read Moreاعجاز گل ۔۔۔ باغ کی رنگت سنہری رُت خزانی سے ہوئی
باغ کی رنگت سنہری رُت خزانی سے ہوئی کیمیا یہ خاک اپنی رایگانی سے ہوئی حل ہوا ہے مسئلہ یوں باہمی تفہیم سے گفتِ اوّل کی درستی گفتِ ثانی سے ہوئی رہ گیا کردار باقی یا مرا اخراج ہے بات کچھ واضح نہیں اب تک کہانی سے ہوئی بعد میں دیگر عوامل نے بنائی تھی جگہ اصل میں تو یہ زمیں تشکیل پانی سے ہوئی ہوں مکینِ بے سکونت کتنے رفت و حال کا منقسم یہ ذات ہر نقلِ زمانی سے ہوئی کب سے رکھا جا رہا ہوں درمیانِ وصل…
Read More