آصف شفیع

مَیں چپ ہوں اب اُسے کیسے بتاؤں کوئی اندر سے کیسے ٹوٹتا ہے

Read More

آصف شفیع … جہانِ حرف کی جانب جھکاؤ تھا ہی نہیں

جہانِ حرف کی جانب جھکاؤ تھا ہی نہیں سخنوری سے کچھ اُس کو لگاؤ تھا ہی نہیں ہمیں تو خاک اُڑاناتھی، بس اُڑا آئے ہمارا دشت میں کوئی پڑاؤ تھا ہی نہیں میں رو پڑا یہ بتاتے ہوئے “ میں جب لوٹا” وہ لوگ، خیمے، وہ جلتا الاؤ تھا ہی نہیں وفا میں جاں سے نہ جاتے تو اور کیا کرتے ہمارے پاس کوئی اور داؤ تھا ہی نہیں اسی لیے مرے حصے میں آئی جنسِ وفا لگا دیا تھا جو میں نے وہ بھاؤ تھا ہی نہیں ہوا کے…

Read More

آصف شفیع … صدیوں سے اجنبی

صدیوں سے اجنبی ……………………. اُس کی قربت میں بیتے سب لمحے میری یادوں کا ایک سرمایہ خوشبوئوں سے بھرا بدن اس کا دل کو بھاتا تھا بانکپن اُس کا شعلہ افروز حسن تھا اُس کا دلکشی کا وہ اک نمونہ تھی مجھ سے جب ہمکلام ہوتی تھی خواہشوں کے چمن میں ہر جانب چاہتوں کے گلاب کھلتے تھے اُس کی قربت میں ایسے لگتا تھا اک پری آسماں سے اتری ہو جب کبھی میں یہ پوچھتا اُس سے ساتھ میرے چلو گی تم کب تک مجھ سے قسمیں اُٹھا کے…

Read More

نعت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ آصف شفیع

شہر طیبہ میں جب قدم رکھنا فکرِ دنیا کو دل میں کم رکھنا سب گناہوں کو اشک دھو ڈالیں اپنی آنکھوں کو ایسے نم رکھنا آپ محشر میں ہاتھ تھامیں گے میرے آقا! مرا بھرم رکھنا کتنا مشکل ہے حاضری کے سمے اپنے اوسان کو بہم رکھنا آگہی کی ہے اولیں منزل رایگانی کا دل میں غم رکھنا مرتے دم تک نبی کی حرمت کا ہاتھ میں تھام کر علم رکھنا نعت کی جب چھلک پڑے خوشبو اپنے ہاتھوں سے تب قلم رکھنا شہر ِتقدیس ہے یہاں آصف چلتے پھرتے…

Read More

آصف شفیع

عجیب ہوتا ہے آزار نارسائی کا یہ ایسا روگ ہے جس کی کسک نہیں جاتی

Read More

دل کا ہر ایک ناز اٹھانا پڑا مجھے ۔۔۔ آصف شفیع

دل کا ہر ایک ناز اٹھانا پڑا مجھے اُس بے وفا کی دید کو جانا پڑا مجھے دنیا کو اپنا آپ دکھانے کے واسطے گنگا کو الٹی سمت بہانا پڑا مجھے شہرِ وفا میں چار سو ظلمت تھی اس قدر ہر گام دل کا دیپ جلانا پڑا مجھے صحرا سرشت جسم میں صدیوں کی پیاس تھی دریا کو اپنی سمت بلانا پڑا مجھے دیوانگی کو جب مری رستہ نہ مل سکا سوئے دیارِ عاشقاں جانا پڑا مجھے اقرار کر لیا تھا ہزاروں کے درمیاں سو عمر بھر وہ عہد نبھانا…

Read More

ترے ہمراہ چلنا ہے ۔۔۔ آصف شفیع

ترے ہمراہ چلنا ہے! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ترے ہمراہ چلنا ہے سفر غم کا زیادہ ہے غموں کی دھول میں لپٹی ہمارے جسم پر لیکن سلگتی جاگتی اور بے ارادہ خواہشوں کا اک لبادہ ہے زمانہ لاکھ روکے مجھ کواس پرہول وادی میں قدم رکھنے سے، لیکن اب پلٹ سکتا نہیں ہرگز کبھی میں اس ارادے سے مجھے معلوم ہے اس راستے پر مشکلیں ہوں گی بگولے وقت کے مجھ کو اُڑا لے جائیں گے ایسے کسی گمنام صحرا میں جہاں ذی روح اشیاء کا وجود اک بے حقیقت استعارے سے زیادہ…

Read More