ترے ہمراہ چلنا ہے ۔۔۔ آصف شفیع

ترے ہمراہ چلنا ہے!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترے ہمراہ چلنا ہے
سفر غم کا زیادہ ہے
غموں کی دھول میں لپٹی ہمارے جسم پر لیکن
سلگتی جاگتی اور بے ارادہ خواہشوں کا اک لبادہ ہے
زمانہ لاکھ روکے مجھ کواس پرہول وادی میں
قدم رکھنے سے، لیکن اب
پلٹ سکتا نہیں ہرگز کبھی میں اس ارادے سے
مجھے معلوم ہے اس راستے پر مشکلیں ہوں گی
بگولے وقت کے مجھ کو اُڑا لے جائیں گے
ایسے کسی گمنام صحرا میں
جہاں ذی روح اشیاء کا وجود
اک بے حقیقت استعارے سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا
بدن کی تشنگی حد سے بڑھے گی جب
کوئی بارش کا قطرہ تک نہ برسے گا
زمیں پر جب سلگتے آگ برساتے ہوئے
سورج کی کرنیں پڑ رہی ہوں گی
تو سایا بھی نہیں ہوگا
مگر میں نے ارادہ کر لیا ہے اب
ترے ہمراہ چلنے کا
ارادہ کر لیا جائے تو پھر یہ پوچھنا کیسا
سفر کتنا ہے اور کس طرح طے ہوگا!
سفر کی انتہا کیا ہے !
ارادہ کر لیا جائے تو رستے کی تھکن کیسی!
سفر کی مشکلیں کیسی!
ارادہ کر لیا جائے تو پھر یہ پوچھنا کیسا
کہ منزل بھی ملے گی یا!
بھٹکتے ہی رہیں گے عمر بھر دشت و بیاباں میں
سفر کی پرخطر راہیں ڈرا سکتی نہیں مجھ کو
جو سچ پوچھو تو، اے ہمدم!
محبت، اپنی منزل ہے!
جنوں، رستہ ہمارا ہے!
غبارِ درد میں لپٹا ہوا چہرہ سفر کا استعارہ ہے
چلو، تیار ہو جائو
اکٹھے ساتھ چلتے ہیں
سفر کے پار اُس جانب
ہمیں منزل بلاتی ہے!

Related posts

Leave a Comment