آصف شفیع … جہانِ حرف کی جانب جھکاؤ تھا ہی نہیں

جہانِ حرف کی جانب جھکاؤ تھا ہی نہیں
سخنوری سے کچھ اُس کو لگاؤ تھا ہی نہیں

ہمیں تو خاک اُڑاناتھی، بس اُڑا آئے
ہمارا دشت میں کوئی پڑاؤ تھا ہی نہیں

میں رو پڑا یہ بتاتے ہوئے “ میں جب لوٹا”
وہ لوگ، خیمے، وہ جلتا الاؤ تھا ہی نہیں

وفا میں جاں سے نہ جاتے تو اور کیا کرتے
ہمارے پاس کوئی اور داؤ تھا ہی نہیں

اسی لیے مرے حصے میں آئی جنسِ وفا
لگا دیا تھا جو میں نے وہ بھاؤ تھا ہی نہیں

ہوا کے ایک ہی جھونکے نے توڑ ڈالا اسے
وہ خشک شاخ کہ جس میں جھکاؤ تھا ہی نہیں

ہماری ناؤ کو منزل سے دور کر دیتی
کسی بھی موج میں ایسا بہاؤ تھا ہی نہیں

معاملات ہوئے طے تو یہ کھلا آصف
ہمارے بیچ تو کوئی تناؤ تھا ہی  نہیں

Related posts

Leave a Comment