اعجاز کنور راجہ ۔۔۔ جانے کس سمت کوئی بابِ سفر کھولتا ہے

جانے کس سمت کوئی بابِ سفر کھولتا ہے سانس اکھڑتی ہے نہ اس رہ پہ قدم ڈولتا ہے ایک ہی وقت میںآنکھوں سے‘ بدن سے‘ لب سے اک وہی شخص محبت کی زباں بولتا ہے پھول کھل اٹھتے ہیں گلدان میں مرجھائے ہوئے لمس پوروں کا تحیّر کی گرہ کھولتا ہے پاؤں رکھتا ہے زمیں پر تو زمیں جھومتی ہے سانس لیتا ہے کہ وہ بادِ صبا جھولتا ہے اس کی خوشبو سے مہک اٹھتی ہے کمرے کی فضا پھول کھلتا ہے کہ وہ بندِ قبا کھولتا ہے جانچ لیتی…

Read More

اعجاز گل ۔۔۔ باغ کی رنگت سنہری رُت خزانی سے ہوئی

باغ کی رنگت سنہری رُت خزانی سے ہوئی کیمیا یہ خاک اپنی رایگانی سے ہوئی حل ہوا ہے مسئلہ یوں باہمی تفہیم سے گفتِ اوّل کی درستی گفتِ ثانی سے ہوئی رہ گیا کردار باقی یا مرا اخراج ہے بات کچھ واضح نہیں اب تک کہانی سے ہوئی بعد میں دیگر عوامل نے بنائی تھی جگہ اصل میں تو یہ زمیں تشکیل پانی سے ہوئی ہوں مکینِ بے سکونت کتنے رفت و حال کا منقسم یہ ذات ہر نقلِ زمانی سے ہوئی کب سے رکھا جا رہا ہوں درمیانِ وصل…

Read More

اعجاز کنور راجہ … چھپا کے شب سے جو شمس و قمر بناتے ہیں

چھپا کے شب سے جو شمس و قمر بناتے ہیں دکھائی   دیتے   نہیں   ہیں  مگر   بناتے ہیں حروفِ  سبز  میں  ڈوبے  ہوئے  قلم  لے  کر ہم اپنے  دستِ  ہنر  سے   شجر  بناتے  ہیں ستارا  وار   چنی   ہے   کرن  کرن   ہم  نے اور  اپنے  حسنِ  نظر  سے  سحر  بناتے ہی ترا  وجود   غنیمت   ہے   اے   سیاہئ  شب ہم  اپنی  اپنی  ضرورت  کے  ڈر بناتے  ہیں کنارا  ہاتھ  سے  چھوڑا  نہیں  ابھی  ہم نے خیال و خواب  میں  ہر  سو  بھنور بناتے ہیں رواج  ہے  کہ  جو  خود  با  خبر  نہیں  ہوتے…

Read More