اعجاز گل ۔۔۔ باغ کی رنگت سنہری رُت خزانی سے ہوئی

باغ کی رنگت سنہری رُت خزانی سے ہوئی
کیمیا یہ خاک اپنی رایگانی سے ہوئی

حل ہوا ہے مسئلہ یوں باہمی تفہیم سے
گفتِ اوّل کی درستی گفتِ ثانی سے ہوئی

رہ گیا کردار باقی یا مرا اخراج ہے
بات کچھ واضح نہیں اب تک کہانی سے ہوئی

بعد میں دیگر عوامل نے بنائی تھی جگہ
اصل میں تو یہ زمیں تشکیل پانی سے ہوئی

ہوں مکینِ بے سکونت کتنے رفت و حال کا
منقسم یہ ذات ہر نقلِ زمانی سے ہوئی

کب سے رکھا جا رہا ہوں درمیانِ وصل و ہجر
اب تو حالت غیر حالت درمیانی سے ہوئی

آج ہے تحریرِ پیشانی، عمل سے منسلک
ابتدا کل جس کی لوحِ آسمانی سے ہوئی

چھوڑ آیا ہوں سوالِ امتحاں سب بے جواب
پوچھ مت خفّت جو اپنی نکتہ دانی سے ہوئی

حافظے سے جان چھوٹی، بولتا فر فر ہوں مَیں
ساری لکنت دُور نسیاں کی روانی سے ہوئی

Related posts

Leave a Comment