سعید راجہ ۔۔۔ چراغوں کو بجھایا جا چکا ہے

چراغوں کو بجھایا جا چکا ہے سو اب ہر طاق میں دھوکا دھرا ہے چمن کو سرخ مٹی چاہیے کیا مجھے پھر سے پکارا جا رہا ہے بدن میرا کبھی ایسا نہیں تھا تری قربت میں نیلا پڑ گیا ہے یہ پیشانی کے گھاؤ جانتے ہیں مرا دیوار سے جھگڑا ہوا ہے ابھی تک لوگ کیوں بیٹھے ہوئے ہیں سنا ہے آنے والا جا چکا ہے چلو اس بات کی تصدیق کر لیں مجھے ہنستے ہوئے دیکھا گیا ہے میں کب کا جا چکا ہوتا یہاں سے سعید اس نے…

Read More

ثمینہ راجہ ۔۔۔ چوتھی سمت

چوتھی سمت ۔۔۔۔۔۔۔۔ پرانے وقتوں کے شاہزادے سفر پہ جاتے تو لوگ اُن کو ہمیشہ ہی چوتھی سمت جانے سے روکتے تھے مگر انھیں اک عجب تجسس کشاں کشاں اُس طرف بڑھاتا اور ایک سنسان راستے پر ہوا کی بے چین سیٹیوں سے اُبھرتی آواز شاہزادوں کے نام لے کر پکارتی تھی پلٹ کے تکتے تو شاہزادے سیاہ پتھر میں ڈھلتے جاتے ہمارے بچپن نے یہ کہانی اماوسوں کی اندھیری راتوں میں کتنے شوق اور کس لگن سے ہزارہا مرتبہ سنی تھی ہمارا بچپن گزر چکا اب ہمیں بھی درپیش…

Read More

آئینوں کے درمیاں ۔۔۔ ثمینہ راجا

آئینوں کے درمیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آئنوں کے درمیاں کٹتی ہے میری زندگی ہر سمت ہے اپنا وجود اور ہر طرف چہرہ مرا اور اپنے ان مانوس چہروں کے ہجومِ بے پنہ میں کس قدر تنہا ہوں مَیں

Read More

سعید راجہ ۔۔۔۔ خرامِ وقت! میں اتنا تو کام کر سکتا

خرامِ وقت! میں اتنا تو کام کر سکتا مقامِ عشق پہ تھوڑا قیام کر سکتا مِرے قلم کی گرہ کھل نہیں سکی، ورنہ میں اپنے خواب زمانے میں عام کر سکتا مجھے جو ملتی فراغت تو شام سے پہلے میں روشنی کا کوئی انتظام کر سکتا جمالِ یار نہ ہوتا تو عین ممکن تھا میں اپنے ہونے کا بھی اہتمام کر سکتا نواحِ دشت میں کوئی جگہ نہیں ہے جہاں ذرا سی دیر مسافر قیام کر سکتا اگر پرند ۔۔۔ مِرے جسم پر اُتر آتے میں سینہ تان شجر سے…

Read More

سعید راجہ ۔۔۔۔۔ کوئی جگنو نہ دیا لائے ہیں

کوئی جگنو نہ دیا لائے ہیں آنکھ میں دل کی ضیا لائے ہیں ہم ترے قرب کی پہنائی سے اک نیا بھید اٹھا لائے ہیں زرد ہے اور بہت گہرا ہے آپ جو رنگِ حنا لائے ہیں رقص کرنے کا نہیں ہے یارا بس ترا حکم بجا لائے ہیں اک نیا خواب ضرورت تھا ہمیں اک نئی نیند اٹھا لائے ہیں ایک فرعون سے ملنے کے لیے ہاتھ میں ایک عصا لائے ہیں یہ تو انمول اثاثہ ہے سعید لوگ جو حرفِ دعا لائے ہیں

Read More

سعید راجہ ۔۔۔۔۔ منکشف ذات کیوں نہیں کرتا

منکشف ذات کیوں نہیں کرتا آئنہ بات کیوں نہیں کرتا ایک دھن ہے کہ اس کو دیکھوں میں وہ ملاقات کیوں نہیں کرتا میرے صحرا میں پھول کھل اٹھیں ایسی برسات کیوں نہیں کرتا تیری نظروں سے کیا نہیں ممکن تو کرامات کیوں نہیں کرتا آشنائی کی آرزو ہے تجھے تو سوالات کیوں نہیں کرتا قطرہ قطرہ عنایتیں مجھ پر غم کی بہتات کیوں نہیں کرتا تیرے حالات بھی بدل جائیں تو مناجات کیوں نہیں کرتا اک معمہ ہی بن گیا ہے سعید دل تری بات کیوں نہیں کرتا

Read More

اعجاز کنور راجہ … چھپا کے شب سے جو شمس و قمر بناتے ہیں

چھپا کے شب سے جو شمس و قمر بناتے ہیں دکھائی   دیتے   نہیں   ہیں  مگر   بناتے ہیں حروفِ  سبز  میں  ڈوبے  ہوئے  قلم  لے  کر ہم اپنے  دستِ  ہنر  سے   شجر  بناتے  ہیں ستارا  وار   چنی   ہے   کرن  کرن   ہم  نے اور  اپنے  حسنِ  نظر  سے  سحر  بناتے ہی ترا  وجود   غنیمت   ہے   اے   سیاہئ  شب ہم  اپنی  اپنی  ضرورت  کے  ڈر بناتے  ہیں کنارا  ہاتھ  سے  چھوڑا  نہیں  ابھی  ہم نے خیال و خواب  میں  ہر  سو  بھنور بناتے ہیں رواج  ہے  کہ  جو  خود  با  خبر  نہیں  ہوتے…

Read More