بانی ۔۔۔ جو زہر ہے مرے اندر وہ دیکھنا چاہوں

جو زہر ہے مرے اندر وہ دیکھنا چاہوں
عجب نہیں میں ترا بھی کبھی برا چاہوں

میں اپنے پیچھے عجب گرد چھوڑ آیا ہوں
مجھے بھی رہ نہ ملے گی جو لوٹنا چاہوں

وہ اک اشارۂ زیریں ہزار خوب سہی
میں اب صدا کے صِلے میں کوئی صدا چاہوں

مرے حروف کے آئینے میں نہ دیکھ مجھے
میںٕ اپنی بات کا مفہوم دوسرا چاہوں

ق

کھُلی ہے دل پہ کچھ اس طرح غم کی بے سببی
تری خبر نہ کچھ اپنا ہی اب پتا چاہوں

کوئی پہاڑ، نہ دریا، نہ آگ رستے میں
عجب سپاٹ سفر ہے کہ حادثہ چاہوں

نہ چاہوں دور سے آتی ہوئی کوئی آواز
نہ اپنے ساتھ میں اپنی صدائے پا چاہوں

نہ چاہوں سامنے اپنے کوئی بھی عکسِ سفر
نہ سر پہ راہ دکھاتی ہوئی ہوا چاہوں

وہ لائے تو کسی رنجش کو درمیاں بانی
میں بات کرنے کو تھوڑا سا فاصلہ چاہوں

Related posts

Leave a Comment