زندگی بھر خزاؤں میں رہنا
کس لیے بے وفاؤں میں رہنا
جا رہا ہوں ترے نگر سے، مجھے
اب نہیں ان خداؤں میں رہنا
مار ڈالے گی غم کی ارزانی
کم کرو انتہاؤں میں رہنا
یہ غزل آخری سمجھ کے سنو
اور سیکھو بلاؤں میں رہنا
اچھا لگتا ہے، ہر گھڑی ناصر
یوں کسی کی دعاؤں میں رہنا
Related posts
-
آصف ثاقب ۔۔۔ ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے (خالد احمد کے نام)
ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے گزر گئے ہیں جہاں سے وہ پوچھنے والے... -
شبہ طراز ۔۔۔ تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا
تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا اور مرحلۂ شوق یہ آسان بھی ہو... -
سعداللہ شاہ ۔۔۔ کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ
کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ تم نے تو بدمزاجی میں ہر بازی ہار...