معین ناصر ۔۔۔ تھا کوئی خوف، لیکن واہموں جیسا

تھا کوئی خوف، لیکن واہموں جیسا وہ حال اپنا برستے بادلوں جیسا کوئی بھی اس مکاں میں اب نہیں رہتا زمیں پر کیا ہوا ہے حادثوں جیسا بکھرنے جو نہیں دیتا مجھے، ایسا ہے کیا ماں کی دعا میں حوصلوں جیسا وہی ہیں خون کے رشتے،وہی گھر ہے مگر ہے درمیاں کچھ فاصلوں جیسا کہانی میں سفر کی درج ہے ناصر سڑک پر کچھ پڑا تھا آبلوں جیسا

Read More

معین ناصر ۔۔۔ زندگی بھر خزاؤں میں رہنا

زندگی بھر خزاؤں میں رہنا کس لیے بے وفاؤں میں رہنا جا رہا ہوں ترے نگر سے، مجھے اب نہیں ان خداؤں میں رہنا مار ڈالے گی غم کی ارزانی کم کرو انتہاؤں میں رہنا یہ غزل آخری سمجھ کے سنو اور سیکھو بلاؤں میں رہنا اچھا لگتا ہے، ہر گھڑی ناصر یوں کسی کی دعاؤں میں رہنا

Read More

معین ناصر ۔۔۔ کاروبارِِ عتاب ہونا ہے

کار و بارِ عتاب ہونا ہے اب فقط احتساب ہونا ہے کون،کب،کس طرح رہا، یارو! روزِ محشر حساب ہونا ہے خواب میں کل مجھے لگا ایسے عشق اُن سے، جناب! ہونا ہے پھر رہا ہوں گلی گلی جیسے اب مجھے بس خراب ہونا ہے میں ہوں اپنی تلاش میں ناصر کم سے کم دستیاب ہونا ہے

Read More

معین احسن جذبی

سوالِ شوق پہ کچھ اُن کو اجتناب سا ہے جواب یہ تو نہیں ہے مگر جواب سا ہے

Read More

معین احسن جذبی ۔۔۔ تم چین سے آخر سو نہ سکے، دکھ ہی میں رہے سکھ پا نہ سکے

تم چین سے آخر سو نہ سکے دکھ ہی میں رہے سکھ پا نہ سکے ٹھکرانے کو ٹھکرا تو دیا پر دل سے مجھے ٹھکرا نہ سکے اِس حرص و ہوا کی دنیا میں ہم کیا چاہیں ہم کیا مانگیں! جو چاہا ہم کو مل نہ سکا جو مانگا وہ بھی پا نہ سکے دنیا کی بلائوں کا ہو بھلا، بے رحم خدائوں کا ہو بھلا ہم حسن و محبت کے نغمے، اے دوست! بہت دن گا نہ سکے ۱۹۳۷ء

Read More

معین احسن جذبی ۔۔۔ ہم دہر کے اس ویرانے میں جو کچھ بھی نظارا کرتے ہیں

ہم دہر کے اس ویرانے میں جو کچھ بھی نظارا کرتے ہیں اشکوں کی زباں میں کہتے ہیں، آہوں میں اشارا کرتے ہیں کیا تجھ کو پتہ، کیا تجھ کو خبر، دن رات خیالوں میں اپنے اے کاکلِ گیتی! ہم تجھ کو جس طرح سنوارا کرتے ہیں اے موجِ بلا! ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارا کرتے ہیں کیا جانیے کب یہ پاپ کٹے، کیا جانیے وہ دن کب آئے جس دن کے لیے ہم، اے جذبی! کیا…

Read More

معین احسن جذبی ۔۔۔ منزل تک ۔۔۔

منزل تک ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنے بے خواب حسینوں کی تسلّی کے لیے بند ہوتی ہوئی آنکھوں کے سلام آئیں گے کتنے جلتے ہوئے گلرنگ لبوں کی خاطر سرد ہوتے ہوئے ہونٹوں کے پیام آئیں گے کتنے افسردہ ستاروں کو بنا کر خورشید کتنے خورشیدِ درخشاں لبِ بام آئیں گے اپنے سینے میں چھپائے ہوئے لاکھوں ظلمات ضوفگن کتنے ابھی ماہِ تمام آئیں گے ہر قدم آگے بڑھانے کے لیے خون کی بھینٹ ایسے بھی، اے غمِ دل! کتنے مقام آئیں گے تشنگی پینے پہ مجبور کرے یا نہ کرے زہر…

Read More

معین ناصر ۔۔۔۔۔۔۔ کب کسی کا خیال کرتے ہیں

کب کسی کا خیال کرتے ہیں رت جگے بھی کمال کرتے ہیں لفظ جب پیرہن گنوا بیٹھیں لوگ کیا کیا سوال کرتے ہیں زندگی نے سکھا دیا سب کچھ اب کوئی ہم ملال کرتے ہیں آنے والے، یہ جانے والے ۔۔۔ سب وقت کو پائمال کرتے ہیں یہ اداسی۔۔۔ چلو اٹھو، ناصر! کچھ روابط بحال کرتے ہیں

Read More

معین ناصر ۔۔۔۔۔۔ وہ سراپا رہا سہا اُس کا

وہ سراپا رہا سہا اُس کا منتظر ہو گا آئنہ اُس کا عشق اُس نے کبھی کیا ہو گا رکھ رکھائو بتا گیا اُس کا اُس کا ملنا محال تھا،یہ تو خوشبوئوں نے دیا پتہ اُس کا وہ کہانی عجب کہانی تھی تن بدن سٹپٹا گیا اُس کا اور پھر سوچنے لگا ناصر کون در کھٹکھٹا گیا اُس کا

Read More

معین ناصر ۔۔۔۔۔ شاخ پر پھول کچھ ادھ جلے آ گئے

شاخ پر پھول کچھ ادھ جلے آ گئے زندگی میں مِری دوغلے آ گئے شام تو ہو گئی مے کدے میں، مگر روشنی ہو گئی، دل جلے آگئے وقت نے بھی دیا ساتھ کچھ یوں مرا زندگی میں عجب ولولے آ گئے جب ملی اِک نظر، ہر نظر رُک گئی ہر طرف جا بجا زلزلے آ گئے چل پڑا تھا اُسے میں منانے ،مگر درمیاں پھر وہی فیصلے آگئے

Read More