یوسف خالد… بھولا ہوا نہیں ہوں بھلایا ہوا ہوں میں

بھولا ہوا نہیں ہوں بھلایا ہوا ہوں میں
شاید کسی کہانی میں لکھا ہوا ہوں میں

نقشِ قدم ہوا سے مٹائے نہ جا سکے
اس طور  اِک دیار سے گزرا ہوا ہوں میں

مت جان کہ میں ذات کے معبد میں قید ہوں
فطرت کی پور پور میں اترا ہوا ہوں میں

پھولوں میں کر تلاش مجھے خوشبوؤں میں ڈھونڈ
ان وادیوں میں ہی کہیں کھویا ہوا ہوں میں

اب تک فضا میں گونجتی ہے اس کی باز گشت
اک گیت کی طرح کہیں گایا ہوا ہوں میں

منظرسبھی سجے ہوئے اک آئنے میں ہیں
اور آئنے کے روبرو رکھا ہوا ہوں میں

ہر لمحہ لفظ اوڑھ کے رہتا ہوں منتظر
جیسے کسی خیال کا سوچا ہوا ہوں میں

پوچھا کسی نے خواب دریچے سے جھانک کر
کیوں اپنے گرد و پیش سے روٹھا ہوا ہوں میں

معنی سےدستکش ہوا  اِحساس کس طرح
مدت سے اس سوال میں الجھا ہوا ہوں میں

Related posts

Leave a Comment