حفیظ جونپوری ۔۔۔ خود بہ خود آنکھ بدل کر یہ سوال اچھا ہے

خود بہ خود آنکھ بدل کر یہ سوال اچھا ہے روز کب تک کوئی پوچھا کرے حال اچھا ہے ہجر میں عیشِ گزشتہ کا خیال اچھا ہے ہو جھلک جس میں خوشی کی وہ مآل اچھا ہے داغ بہتر ہے وہی ہو جو دلِ عاشق میں جو ر ہے عارضِ خوباں پہ وہ خال اچھا ہے دیکھ ان خاک کے پتلوں کی ادائیں زاہد ان سے کس بات میں حوروں کا جمال اچھا ہے کیجیے اور بھی شکوے کہ مٹے دل کا غبار باتوں باتوں میں نکل جائے‘ ملال اچھا…

Read More

حفیظ جونپوری ۔۔۔ ہوئے عشق میں امتحاں کیسے کیسے

ہوئے عشق میں امتحاں کیسے کیسے پڑے مرحلے درمیاں کیسے کیسے رہے دل میں وہم و گماں کیسے کیسے سَرا میں ٹِکے کارواں کیسے کیسے گھر اپنا غم و درد سمجھے ہیں دل کو بنے میزباں‘ میہماں کیسے کیسے شبِ ہجر باتیں ہیں دیوار و در سے ملے ہیں مجھے رازداں کیسے کیسے دکھاتا ہے دن رات آنکھوں کو میری سیاہ و سفید آسماں کیسے کیسے جو کعبے سے نکلے‘ جگہ دیر میں کی ملے ان بتوں کو مکاں کیسے کیسے فرشتے بھی گھائل ہیں تیرِ ادا کے نشانہ ہوئے…

Read More

حفیظ جونپوری ۔۔۔ بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے

بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے نہیں مرتے ہیں تو ایذا نہیں جھیلی جاتی اور مرتے ہیں تو پیماں شکنی ہوتی ہے دن کو اک نور برستا ہے مری تربت پر رات کو چادرِ مہتاب تنی ہوتی ہے زندہ در گور ہم ایسے جو ہیں مرنے والے جیتے جی ان کے گلے میں کفنی ہوتی ہے رت بدلتے ہی بدل جاتی ہے نیت میری جب بہار آتی ہے توبہ شکنی ہوتی ہے غیر کے بس میں تمھیں سن کے یہ کہہ…

Read More

حفیظ جون پوری

مجھ سا بدمست کوئی رندِ قدح نوش نہیںکب بہار آئی تھی اتنا بھی یہاں ہوش نہیں

Read More