کیف مراد آبادی ۔۔۔ اہل دل جو بھی بات کہتے ہیں

اہلِ دل جو بھی بات کہتے ہیں

کوئی رازِ حیات کہتے ہیں

ان کے غم سے ہے جاوداں‘ ورنہ

زیست کو بے ثبات کہتے ہیں

ہائے وہ دورِ عشق جب آنسو

داستانِ حیات کہتے ہیں

خوابِ غفلت میں جو گزرتا ہے

ہم تو اس دن کو رات کہتے ہیں

عشق کی اصطلاح میں غم کو

انقلابِ حیات کہتے ہیں

جو بھی ہیں واقفِ حقیقتِ دل

دل کو ہی کائنات کہتے ہیں

لفظ و معنی میں آ نہیں سکتی

وہ نظر سے جو بات کہتے ہیں

مردِ حق میں تو ماسوا کو بھی

پرتوِ حسنِ ذات کہتے ہیں

مدتوں غور کرنا پڑتا ہے

ان سے جب دل کی بات کہتے ہیں

کار گاہِ نقوشِ عبرت کو

کیف سب کائنات کہتے ہیں

Related posts

Leave a Comment