رُکو، وہم و شبہات کا وقت ہے کہاں جائو گے، رات کا وقت ہے کسی بھاری پتھر تلے دے کے دل یہ تخفیفِ جذبات کا وقت ہے بدلنے پہ اس کے نہ یوں رنج کر یہ معمولی اوقات کا وقت ہے یہ کیا دل میں ریزہ رڑَکنے لگا ابھی تو شروعات کا وقت ہے گلے خشک، پیشانیاں تر بتر عمل کے مکافات کا وقت ہے
Read MoreTag: Sial
ڈاکٹر عابد سیال ۔۔۔ دور دیسوں سے بلائے بھی نہیں جا سکتے
دور دیسوں سے بلائے بھی نہیں جا سکتے وہ پکھیرو جو بھلائے بھی نہیں جا سکتے تُرش خُو، تیز مزہ پھل ہیں یہاں کے اور ہم بنا چکھے، بنا کھائے بھی نہیں جا سکتے حیرتِ مرگ، بلاوا ہے یہ اس جانب سے جس طرف دھیان کے سائے بھی نہیں جا سکتے کرچی کرچی کی چبھن سہنا بھی آسان نہیں خواب آنکھوں سے چھپائے بھی نہیں جا سکتے کچھ جو کہتا ہوں تو پھر اپنا ہی دل کٹتا ہے لوگ اپنے ہیں رُلائے بھی نہیں جا سکتے
Read Moreعابد سیال ۔۔۔ دور دیسوں سے بلائے بھی نہیں جا سکتے
دور دیسوں سے بلائے بھی نہیں جا سکتے وہ پکھیرو جو بھلائے بھی نہیں جا سکتے تُرش خُو ، تیز مزہ پھل ہیں یہاں کے اور ہم بنا چکھے ، بنا کھائے بھی نہیں جا سکتے حیرتِ مرگ ، بلاوا ہے یہ اس جانب سے جس طرف دھیان کے سائے بھی نہیں جا سکتے کرچی کرچی کی چبھن سہنا بھی آسان نہیں خواب آنکھوں سے چھپائے بھی نہیں جا سکتے کچھ جو کہتا ہوں تو پھر اپنا ہی دل کٹتا ہے لوگ اپنے ہیں، رُلائے بھی نہیں جا سکتے
Read Moreڈاکٹر عابد سیال ۔۔۔ سننے والا میں کسی تازہ بہانے کا نہیں
سننے والا میں کسی تازہ بہانے کا نہیں نامرادانہ اب اس شہر سے جانے کا نہیں بات جو سہج بنائی تھی وہ بے ڈھب نکلی لفظ جو چن کے بٹھایا تھا ٹھکانے کا نہیں کارِ بے کار کی تکرار لگے میل ملاپ مسئلہ اور ہے کچھ، نِبھنے نبھانے کا نہیں دل اگر اپنی سبک چال حریفانہ چلے دور تک کوئی مقابل نظر آنے کا نہیں تم یہ کس زعم میں پھسلے تھے مِری مُٹھی سے گر پڑی چیز پلٹ کر میں اٹھانے کا نہیں اس کھنڈر پر نہیں رکنا،مِری منزل…
Read Moreڈاکٹر عابد سیال ۔۔۔۔۔۔۔ یہاں منصفی کی روایت نہیں
یہاں منصفی کی روایت نہیں ہماری یہ پہلی شکایت نہیں نمک والی لذت الگ چیز ہے یہ شیرینی کرتی کفایت نہیں مداوا بھی کچھ داد کے ساتھ ساتھ کہ احوالِ دل تھا، حکایت نہیں ہمکتے ہوئے دل میں ہجرت کا ڈر ابھی سرسری ہے، سرایت نہیں فراموش گاری کا سیلِ رواں کسی سے بھی کوئی رعایت نہیں مبارک تری مصلحت تجھ کو، دوست! دعا چاہیے بس، حمایت نہیں مصیبت میں مت پڑ کہ میں اس قدر طلب گارِ رشد و ہدایت نہیں
Read Moreڈاکٹر عابد سیال ۔۔۔۔۔۔ اجڑا اجڑا، بکھرا بکھرا، خاک بسر کوئی ہے
اجڑا اجڑا، بکھرا بکھرا، خاک بسر کوئی ہے کھولو شہر کا دروازہ، دروازے پر کوئی ہے کبھی کبھی رغبت ہوتی ہے روز کی چیزوں سے کبھی کبھی ایسا لگتا ہے اپنا گھر کوئی ہے میں اندر کے رستے پر تھا، کیسے دھیان بٹا میرے وہم کی آوازیں ہیں یا باہر کوئی ہے ہر آواز کی تہہ میں جیسے اور آواز کوئی ہر منظر کے پیچھے جیسے اک منظر کوئی ہے مرضی کی مہریں ہیں کانوں اور زبانوں پر بولنا ہر اِک کو آتا ہے، سنتا ہر کوئی ہے حوصلہ ہمت…
Read Moreعابد سیال
یہ عجب لوگ ہیں، دیتے ہیں تو اتنی تکریم کچھ کو منظور نہ ہو، کچھ کو سزاوار نہ ہو
Read Moreڈاکٹر عابد سیال ۔۔۔۔۔۔ جو میسر ہے یہاں،اِتنا بھی اُس پار نہ ہو!
جو میسر ہے یہاں،اِتنا بھی اُس پار نہ ہو! ایسی جلدی میں اُدھر جانے کو تیار نہ ہو! دیکھ سوداگریِ دنیا کہ کچھ دیر کے بعد تُو طلب گارِ تماشا ہو تو بازار نہ ہو پیچ پڑتا ہے ابھی ریت میں اور پائوں میں جس کنارے پہ لگا ہوں، کہیں منجدھار نہ ہو سرخیِ صبح سے سہمائے گئے خواب اور اَب آنکھ بیدار نہ ہو، صبح نمودار نہ ہو یہ عجب لوگ ہیں، دیتے ہیں تو اتنی تکریم کچھ کو منظور نہ ہو، کچھ کو سزاوار نہ ہو یوں اتاریں…
Read Moreمعاصر غزل کی فکریات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عابد سیال
معاصر غزل کی فکریات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آئندہ سطور میں کی جانے والی بات کا فوری تناظر اگرچہ معاصر غزل ہے لیکن عمومی طور پر یہ باتیں کسی بھی زمانے کی غزل بلکہ شاعری اور اس سے بھی بڑھ کر پورے ادب کے بارے میں کی جا سکتی ہیں۔ بات موضوعات سے متعلق ہے۔ سادہ لفظوں میں اور اجمالی طور پر میرا مؤقف یہ ہے کہ کسی شاعری کی اہمیت، جواز اور بقا اس میں ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ شخصی بمعنی ’پرسنل‘ ہو۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ…
Read Moreعابد سیال
لکھنا ہے میں نے لہرتے پانی پہ اُس کا نام اُس نے مری شبیہ بنانی ہوا میں ہے
Read More