قرض مٹی کا ۔۔۔۔۔ ظفر گورکھپوری

قرض مٹی کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرے ہاتھوں میں ، بیٹے! کچھ نہیں تھوڑی سی مٹی ہے زمیں کہتی ہے یہ مٹی تمھارے جسم پر رکھ دوں صلہ دے دوں تمھیں چوبیس برسوں کی محبت کا چُکا  دوں سب تمھارے قرض اِس تھوڑی سی مٹی سے کبھی جب لڑکھڑایا مَیں مری لاٹھی بنے تم گزرتی عمر کے لمحے، جب اپنی گرد لے کر مری پلکوں پہ لپکے ۔۔۔ اور یہ چاہا لَویں بینائیوں کی توڑ لیں ساری چمک اٹھے مری آنکھوں میں روشن حرف بن کر تم مری بدنامیوں ناکامیوں رُسوائیوں کا…

Read More

ڈاکٹر عابد سیال ۔۔۔۔۔۔ جو میسر ہے یہاں،اِتنا بھی اُس پار نہ ہو!

جو میسر ہے یہاں،اِتنا بھی اُس پار نہ ہو! ایسی جلدی میں اُدھر جانے کو تیار نہ ہو! دیکھ سوداگریِ دنیا کہ کچھ دیر کے بعد تُو طلب گارِ تماشا ہو تو بازار نہ ہو پیچ پڑتا ہے ابھی ریت میں اور پائوں میں جس کنارے پہ لگا ہوں، کہیں منجدھار نہ ہو سرخیِ صبح سے سہمائے گئے خواب اور اَب آنکھ بیدار نہ ہو، صبح نمودار نہ ہو یہ عجب لوگ ہیں، دیتے ہیں تو اتنی تکریم کچھ کو منظور نہ ہو، کچھ کو سزاوار نہ ہو یوں اتاریں…

Read More