زعیم رشید ۔۔۔ جنبشِ ارض و سماوات میں آئے ہوئے ہیں

جنبشِ ارض و سماوات میں آئے ہوئے ہیں ان دنوں گردشِ حالات میں آئے ہوئے ہیں اب جو تو چاہے، جہاں چاہے ہمیں لے جائے کیا کریں ہم جو ترے ہاتھ میں آئے ہوئے ہیں میں اکیلا ہی نہیں آیا تجھے دیکھنے کو کچھ ستارے بھی مرے ساتھ میں آئے ہوئے ہیں اے مہِ چار دہم تیری خوشی کی خاطر اِک سیہ رات کی بہتات میں آئے ہوئے ہیں میں بھی دن رات یہاں کوزہ گری کرتا ہوں اُس کے سب رنگ مِری ذات میں آئے ہوئے ہیں عشق خود…

Read More

ڈاکٹر عابد سیال ۔۔۔۔۔۔ جو میسر ہے یہاں،اِتنا بھی اُس پار نہ ہو!

جو میسر ہے یہاں،اِتنا بھی اُس پار نہ ہو! ایسی جلدی میں اُدھر جانے کو تیار نہ ہو! دیکھ سوداگریِ دنیا کہ کچھ دیر کے بعد تُو طلب گارِ تماشا ہو تو بازار نہ ہو پیچ پڑتا ہے ابھی ریت میں اور پائوں میں جس کنارے پہ لگا ہوں، کہیں منجدھار نہ ہو سرخیِ صبح سے سہمائے گئے خواب اور اَب آنکھ بیدار نہ ہو، صبح نمودار نہ ہو یہ عجب لوگ ہیں، دیتے ہیں تو اتنی تکریم کچھ کو منظور نہ ہو، کچھ کو سزاوار نہ ہو یوں اتاریں…

Read More