زعیم رشید ۔۔۔ میاں یہ عشق ہے مت دیکھ اس کو حیرت سے

میاں یہ عشق ہے مت دیکھ اس کو حیرت سے کہ جا کہ ملتا ہے اس کا نسب حقیقت سے چراغ باندھ کے گٹھڑی میں بیچنے چلا ہوں جو جگمگایا نہیں روشنی کی نسبت سے وہ بیٹھا روتا رہا دیر تک اکیلا ہی اُتار کر مرے چہرے کو اپنی صورت سے پڑیں گی اور خراشیں اسے جراحت میں یہ دل ہے ٹھیک نہ ہو گا کبھی مرمت سے ہم اپنے شہر میں کچھ اور بھی امیر ہوئے ہمارا عشق بڑھا درد کی تجارت سے وہ روشنی جو دکھائی کبھی نہیں…

Read More

زعیم رشید ۔۔۔ جنبشِ ارض و سماوات میں آئے ہوئے ہیں

جنبشِ ارض و سماوات میں آئے ہوئے ہیں ان دنوں گردشِ حالات میں آئے ہوئے ہیں اب جو تو چاہے، جہاں چاہے ہمیں لے جائے کیا کریں ہم جو ترے ہاتھ میں آئے ہوئے ہیں میں اکیلا ہی نہیں آیا تجھے دیکھنے کو کچھ ستارے بھی مرے ساتھ میں آئے ہوئے ہیں اے مہِ چار دہم تیری خوشی کی خاطر اِک سیہ رات کی بہتات میں آئے ہوئے ہیں میں بھی دن رات یہاں کوزہ گری کرتا ہوں اُس کے سب رنگ مِری ذات میں آئے ہوئے ہیں عشق خود…

Read More

زعیم رشید ۔۔۔ میں رقص کرتا ہوا،آئنے بناتا ہوا

میں رقص کرتا ہوا،آئنے بناتا ہوا گزرگیا تری گلیوں سے مسکراتا ہوا یہ خالی گھر ہے یہاں کوئی بھی نہیں رہتا بس ایک سایہ سا پھرتا ہے لڑکھڑاتا ہوا پلٹ کے آیا تو چہرے پہ دن اتر آیا چراغ بن کے گیا تھا جو جگمگاتا ہوا میں دل کی کہتا رہا اس کے روبرو پیہم وہ بات سنتا ہوا اور سر ہلاتا ہوا وہ ہنس رہا تھا کہ اِس میں تو اس کا ذکر نہیں میں روپڑا تھا اسے داستاں سناتا ہوا تمام رات مرے ساتھ ساتھ چلتا رہا زعیم…

Read More

زعیم رشید ۔۔۔۔۔۔ دیار ِشوق میں آئے تھے ایک خواب کے ساتھ

دیار ِشوق میں آئے تھے ایک خواب کے ساتھ گزر رہی ہے مسلسل کسی عذاب کے ساتھ ہم اہل درد پکارے گئے صحیفوں میں ہم اہل عشق اتارے گئے کتاب کے ساتھ پھر ایک شام پذیرائی چشم تر کی ہوئی پھر ایک شام گزاری گئی جناب کے ساتھ ہمیں یہ خوف اندھیرے نگل نہ جائیں کہیں سو ہم نے جسم کو ڈھانپا ہے آفتاب کے ساتھ ہوا نے سادھ لی چپ،رات نے دعا مانگی ستارہ سہما رہا بجھتے آفتاب کے ساتھ مکالمہ رہا جاری ہماری آنکھوں کا بدن کی شاخ…

Read More

زعیم رشید ۔۔۔۔۔۔۔۔ باندھ کر پیاس کو پانی میں لیے پھرتا ہوں

باندھ کر پیاس کو پانی میں لیے پھرتا ہوں عشق کی آگ جوانی میں لیے پھرتا ہوں ایک کردار جو آیا نہ پلٹ کر واپس آج بھی اپنی کہانی میں لیے پھرتا ہوں اس لیے یاد مجھے آتا ہے تو ہر لمحہ خود کو میں تیری نشانی میں لیے پھرتا ہوں رقص کرتے ہوئے ہوجاتا ہوں خوشبو کی طرح خود کو میں رات کی رانی میں لیے پھرتا ہوں اک جدائی کی خزاں ہے کہ جسے صدیوں سے موسم گل کی روانی میں لیے پھرتا ہوں عکس کی موت بنی…

Read More

زعیم رشید ۔۔۔۔۔۔۔ کیا کیا یہاں تصویر کے پہلو میں پڑا ہے

کیا کیا یہاں تصویر کے پہلو میں پڑا ہے تاجر! ترا ایمان ترا زو میں پڑا ہے اِک خوف، مِری آنکھ میں رہتا ہے مسلسل اِک خواب، ازل سے مِرے آنسو میں پڑا ہے اِک عمر مسافت میں گزاری ہے، مرے یار! اِک شوق سفر دشت کے آہو میں پڑا ہے یہ جاں کہ رہی صورت یاھو میں کہیں گم یہ دل کہ ابھی حلقۂ باھو میں پڑا ہے جو شخص بھلانے سے بھی بھولا نہیں مجھ کو تعویذ کی صورت مِرے بازو میں پڑا ہے ہو گا وہ کبھی…

Read More