زعیم رشید ۔۔۔۔۔۔۔ کیا کیا یہاں تصویر کے پہلو میں پڑا ہے

کیا کیا یہاں تصویر کے پہلو میں پڑا ہے تاجر! ترا ایمان ترا زو میں پڑا ہے اِک خوف، مِری آنکھ میں رہتا ہے مسلسل اِک خواب، ازل سے مِرے آنسو میں پڑا ہے اِک عمر مسافت میں گزاری ہے، مرے یار! اِک شوق سفر دشت کے آہو میں پڑا ہے یہ جاں کہ رہی صورت یاھو میں کہیں گم یہ دل کہ ابھی حلقۂ باھو میں پڑا ہے جو شخص بھلانے سے بھی بھولا نہیں مجھ کو تعویذ کی صورت مِرے بازو میں پڑا ہے ہو گا وہ کبھی…

Read More