زعیم رشید ۔۔۔ جنبشِ ارض و سماوات میں آئے ہوئے ہیں

جنبشِ ارض و سماوات میں آئے ہوئے ہیں
ان دنوں گردشِ حالات میں آئے ہوئے ہیں

اب جو تو چاہے، جہاں چاہے ہمیں لے جائے

کیا کریں ہم جو ترے ہاتھ میں آئے ہوئے ہیں

میں اکیلا ہی نہیں آیا تجھے دیکھنے کو

کچھ ستارے بھی مرے ساتھ میں آئے ہوئے ہیں

اے مہِ چار دہم تیری خوشی کی خاطر

اِک سیہ رات کی بہتات میں آئے ہوئے ہیں

میں بھی دن رات یہاں کوزہ گری کرتا ہوں

اُس کے سب رنگ مِری ذات میں آئے ہوئے ہیں

عشق خود آپ خرافاتِ تمنا ہے زعیم

اِس لیے دشت ِخرافات میں آئے ہوئے ہیں

Related posts

Leave a Comment