ظفر گورکھپوری ۔۔۔۔ غلط آغاز کا انجام، پیارے! سوچ لینا

غلط آغاز کا انجام، پیارے! سوچ لینا کھڑے ہو تم تباہی کےکنارے، سوچ لینا جو رُت بدلی تو اُڑ جائیں گے یہ پلکوں سے اک دن پرندوں کی طرح ہیں خواب سارے، سوچ لینا کہیں چکرا نہ جائو تم، یہ ہے تہذیبِ دریا کہ اک رُخ پہ نہیں بہتے ہیں دھارے، سوچ لینا کھلونے بیچنے والوں کی صورت میں ہیں ڈاکو اُٹھا لے جائیں گے بچے تمھارے، سوچ لینا گھنے شہروں سے اکتا کر بنانا چاہتے ہو نیا سا گھر سمندر کے کنارے، سوچ لینا گزر جائے گی اک دنیا…

Read More

گاؤں کی دہلیز پر ۔۔۔۔۔ ظفر گورکھپوری

گاؤں کی دہلیز پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ سماں میری یادوں میں محفوظ ہے گاؤں سے مَیں چلا میری ماں اور رشتے کی کچھ بھابھیاں کچھ بڑی بوڑھیاں کچھ اڑوسی پڑوسی چھوڑنے آئے تھے گاؤں کی آخری حد پہ                                امرود کے باغ تک آبدیدہ تھے سب اپنی امی کی بانہوں سے تم ہمک کر مری گود میں آ گئے تھے مسکراہٹ میں برفی گھلی تھی اور معصوم "غوں غاں”              کہ تالاب…

Read More

ظفر گورکھپوری ۔۔۔۔ دَر سے، دہلیز سے ، دیوار سے پہلے کیا تھا

دَر سے، دہلیز سے ، دیوار سے پہلے کیا تھا غار پہلے تھا مگر غار سے پہلے کیا تھا کل ہمیں اور تمھیں یاد بھی شاید نہ رہے ان مقامات پہ بازار سے پہلے کیا تھا نہ کوئی خوف تھا آندھی کا، نہ برسات کا ڈر گھر فصیلِ در و دیوار سے پہلے کیا تھا نہ یہ رنگوں کی زمیں تھی نہ سُروں کا آکاش تیرے اور میرے سروکار سے پہلے کیا تھا کل نہ ہو گا کوئی بچوں کو بتانے والا یہ جو دیوار ہے، دیوار سے پہلے کیا…

Read More

قرض مٹی کا ۔۔۔۔۔ ظفر گورکھپوری

قرض مٹی کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرے ہاتھوں میں ، بیٹے! کچھ نہیں تھوڑی سی مٹی ہے زمیں کہتی ہے یہ مٹی تمھارے جسم پر رکھ دوں صلہ دے دوں تمھیں چوبیس برسوں کی محبت کا چُکا  دوں سب تمھارے قرض اِس تھوڑی سی مٹی سے کبھی جب لڑکھڑایا مَیں مری لاٹھی بنے تم گزرتی عمر کے لمحے، جب اپنی گرد لے کر مری پلکوں پہ لپکے ۔۔۔ اور یہ چاہا لَویں بینائیوں کی توڑ لیں ساری چمک اٹھے مری آنکھوں میں روشن حرف بن کر تم مری بدنامیوں ناکامیوں رُسوائیوں کا…

Read More