عابد سیال ۔۔۔ بنائے رنج فراہم تو ہے کہیں نہ کہیں

بنائے رنج فراہم تو ہے کہیں نہ کہیں
نظر نہ آتا ہو، اک غم تو ہے کہیں نہ کہیں

جو ہر خوشی کے کنارے بھگوئے رکھتا ہے
نمک ملا ہوا اِک نم تو ہے کہیں نہ کہیں

کرید اور ذرا ممکنت کی درزوں کو
پکارتا ہے جو پیہم تو ہے کہیں نہ کہیں

تو لاعلاج نہیں، نارسا ہے زخمِ وجود
تجھے ملا نہیں، مرہم تو ہے کہیں نہ کہیں

وہ جس کے آنے کی آہٹ ہے تیرے لہجے میں
کوئی گریز کا موسم تو ہے کہیں نہ کہیں

ہے ایک سائے کی لرزش یہاں وہاں دل پر
کسی نگاہ کا پرچم تو ہے کہیں نہ کہیں

Related posts

Leave a Comment