غلام حسین ساجد ۔۔۔ صاحبِ شام نے جب شروعات کی سیرِآفاق کی

صاحبِ شام نے جب شروعات کی سیرِآفاق کی
میں نے بھی لو بڑھا دی ذرا دیر کو اپنے اوطاق کی

لاکھ چاہا کہ اُس سے کنارہ کروں پر نہیں ہو سکا
گفتگو اُس پری وش نے میری طبیعت کے مصداق کی

طاقچے پر کتابِ صداقت دھری کی دھری رہ گئی
اب سیاہی بھی تحلیل ہونے لگی بوسیدہ اوراق کی

جس طرف دیکھیے آگ کا کھیل جاری ہے افلاک پر
اب ضرورت نہیں ہے مرے مہربانوں کو چمقاق کی

اپنے ورثے میں جو کچھ ملا تھا مجھے میں نے باقی رکھا
قرض تھی جو محبت مری نسل پر میں نے بے باق کی

پاؤں دھرنے کی ہمّت نہیں پڑ رہی قریۂ نجد میں
یعنی تکریم ہے میرے دل میں بہت کارِ عُشّاق کی

طاقِ نسیاں پہ ساجد دھری رہ گئی فصلِ آسودگی
گُھٹ گئی پھر جہالت کے سیلاب میں روح میثاق کی

Related posts

Leave a Comment