غلام حسین ساجد ۔۔۔ میں جب کسی چراغ کی لو سے لپٹ گیا

میں جب کسی چراغ کی لو سے لپٹ گیا
آئینہ اپنی آنکھ کے اندر سمٹ گیا

پیدا ہوئی عروج سے صورت زوال کی
سورج جواں ہوا تو مراسایہ گھٹ گیا

آیا ہوں خاک چھان کے میں دشتِ نجد کی
یہ کام میرے ہاتھ سے کیسے نمٹ گیا

کیا ختم ہو گئی گُلِ موعود کی کشش
کیا میری طرح شہر بھی ٹکڑوں میں بٹ گیا

آئی ہوا تو محو ہوئے رنگ باغ کے
مٹّی اُڑی تو گرد میں ہر پھول اٹ گیا

سچ بولنے کا کوئی ارادہ نہ تھا مگر
جب سر پہ آ پڑی تو یہ ناچیز ڈٹ گیا

ساجد کوئی قضا کے مقابل نہ آ سکا
جو کارواں لپیٹ میں آیا وہ کٹ گیا

Related posts

Leave a Comment