غلام حسین ساجد ۔۔۔ باغِ جمالِ یار ہے کل سے غضب کِھلا ہُوا

باغِ جمالِ یار ہے کل سے غضب کِھلا ہُوا
آنکھیں مُندی مُندی ہوئیں،غنچۂ لب کِھلا ہُوا

آئی ہے لالہ زار سے ایک عجیب سی مہک
یعنی غیاب میں کہیں توُ بھی ہے اب کِھلا ہُوا

کوئی چراغ کھینچ کر لائے گی اُونگھتی کرن
اور نویدِ صبح ہے غُرفۂ شب کِھلا ہُوا

کاش میں یاد کر سکوں دل سےجُڑے معاملات
پایا تھا کب بُجھا ہوا،دیکھا تھا کب کِھلا ہُوا

موجِ طرب نے کر دیا شہرِ الم کو باغ باغ
رات کی بات اور تھی،اب تو ہے سب کِھلا ہُوا

صحنِ چمن میں آئے گی پھر سے بہار ایک دن
آئے گا وہ بھی لوٹ کر،پائے گا جب کِھلا ہُوا

آئے گا کوئے یار میں میری مدد کو آج بھی
جاہ و حشم سے پیش تر نام و نسب کِھلا ہُوا

دھوپ کا سلسلہ کہیں،ابر کی چھتریاں کہیں
کیسا نظر نواز ہے رنگِ ادب کِھلا ہُوا

اچّھا ہوا کہ آپ نے مجھ کو شمار کر لیا
میں تھا بنامِ راحتِ بنتِ عنب کِھلا ہوا

آنے لگی ہے روشنی اڑتے ہوئے نجوم کی
مرکز ِ مہر و ماہ ہے آج عجب کِھلا ہوا

Related posts

Leave a Comment