جلیل عالی ۔۔۔ اُس کی تقویم میں کچھ دخل ہمارا کیا ہے

اُس کی تقویم میں کچھ دخل ہمارا کیا ہے
ایک لمحے کی بھی ترمیم کا یارا کیا ہے

ٹکٹکی باندھ رکھی ہے تری چلمن کی طرف
مجتمع ہوں کہ بکھر جائیں اشارہ کیا ہے

جو تری موجِ محبت میں رواں ہوں اُن کو
شامِ گرداب ہے کیا، صبحِ کنارا کیا ہے

دل کی آواز پہ چلنا ہی عبادت ہے ہمیں
جاں بھی اس راہ میں جائے تو خسارا کیا ہے

اب تو یوں ہے کہ یقیں سے نہیں کچھ کہہ سکتے
ہمیں مطلوب ہے کیا اُس کو گوارا کیا ہے

خود کو کرتے ہو شمار اہلِ وفا کی صف میں
آج تک تم نے مگر عشق میں ہارا کیا ہے

شبِ تاریک میں سر مستِ سفر کو عالی
شوق جگنو ہو میسر تو ستارا کیا ہے

Related posts

Leave a Comment