جلیل عالی ۔۔۔ نہیں ہے شک ہمیں کوئی تری محبت پر

نہیں ہے شک ہمیں کوئی تری محبت پر اک اضطراب ہے بس خامشی کی عادت پر رکھا ہوا ہے فراغت نے اس قدر مصروف اٹھائے جاتے ہیں ہر ایک کام فرصت پر نہ جانے کب کسی بے سمت موج بہہ جائے میں خود بھی سخت پریشاں ہوں اس طبیعت پر دو نیم ہونے کا دکھ ہے مگر ہے سچ یہ بھی شکست مَل گئی کالک رخِ رعونت پر اٹھا دیا ہے سوال اب جواب جب بھی ملے یہ بات چھوڑ رہے ہیں تری سہولت پر لہو میں سوزِ محبت کی…

Read More

جلیل عالی ۔۔۔ اُس کی تقویم میں کچھ دخل ہمارا کیا ہے

اُس کی تقویم میں کچھ دخل ہمارا کیا ہے ایک لمحے کی بھی ترمیم کا یارا کیا ہے ٹکٹکی باندھ رکھی ہے تری چلمن کی طرف مجتمع ہوں کہ بکھر جائیں اشارہ کیا ہے جو تری موجِ محبت میں رواں ہوں اُن کو شامِ گرداب ہے کیا، صبحِ کنارا کیا ہے دل کی آواز پہ چلنا ہی عبادت ہے ہمیں جاں بھی اس راہ میں جائے تو خسارا کیا ہے اب تو یوں ہے کہ یقیں سے نہیں کچھ کہہ سکتے ہمیں مطلوب ہے کیا اُس کو گوارا کیا ہے…

Read More

’’جبریل اُڈاری‘‘ اور تخلیقی ترجمہ نگاری ۔۔۔ جلیل عالی

’’جبریل اُڈاری‘‘ اور تخلیقی ترجمہ نگاری شعر و ادب کے ایسے مترجم تو بہت مل جائیں گے جو کسی ادارے کی فرمائش پر یا اپنی تخلیقی سرگرمیوں کے درمیانی وقفوں کے دوران تراجم کا کام نمٹانے بیٹھ جاتے ہیں۔مگر ایسے ترجمہ نگار کم کم پائے جاتے ہیں جو کسی غیر زبان کیے تخلیق کار کی تخلیقات سے تحریک پا کرایک اندرونی انگیخت سے ان کا ترجمہ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیںاور پھر اپنی تمام تر تخلیقی و اکتسابی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنی زبان میں منتقل کرتے…

Read More

جلیل عالی ۔۔۔ دلوں میں آرزو کیا کیا حسیں پیکر بناتی ہے

دلوں میں آرزو کیا کیا حسیں پیکر بناتی ہے مگر فطرت کہاں سب نقش لوحوں پر بناتی ہے پَروں میں مضطرب کن آسمانوں کی اڑانیں ہیں تمنا کس بہشتِ شوق کے منظر بناتی ہے جہانِ دل میں کیا کیا اشتیاق آباد ہیں دیکھیں نگاہِ لطف اُس کی اب کہاں محشر بناتی ہے یہاں خوشبو کی صورت روز و شب کی دھڑکنوں میں جی یہ دنیا ریت کرنے کے لئے پتھر بناتی ہے فرازِ وقت سے اُس کو صدا دینے تو دے عالی ہوا پھر دیکھ دیوارو ں میں کتنے در…

Read More

جلیل عالی ۔۔۔ یہ دیوارِ انا اک دن گرا کر دیکھ لیں گے

یہ دیوارِ انا اک دن گرا کر دیکھ لیں گے تمہارے دل میں کیا بستے ہیں منظر دیکھ لیں گے ابھی تو خود بھی اپنے آپ سے ہٹ کر کھڑے ہو بٹھاتے ہو کسے کس کے برابر دیکھ لیں گے زمیں پر رینگنے والے قطاروں میں کھڑے ہیں کسے ملتے ہیں اڑنے کے لئے پَر دیکھ لیں گے پسِ چہرہ بھی جو ہر عکس کو پہچانتے ہیں وہ آئینے کبھی رستوں کے پتھر دیکھ لیں گے میں دیواروں پہ تصویریں سجانے میں مگن تھا خبر کیا تھی کہ ویرانے مرا…

Read More

جلیل عالی ۔۔۔ اُسے سب موسموں ملنے کے کتنے راستے تھے

اُسے سب موسموں ملنے کے کتنے راستے تھے مگر دل کی رُتیں اپنی تھیں ، اپنے فیصلے تھے فضا میں ہر کسی آواز کا اپنا بھنور تھا سمندر میں ہراک پتھر کے اپنے دائرے تھے عجب تبدیلیاں آب و ہوا میں آرہی تھیں پرندے اجنبی دیسوں کو ہجرت کر رہے تھے سفر در پیش تھا خواہش کے تِیرہ جنگلوں کا دلوں میں خواب روشن منظروں کے جاگتے تھے رفیقوں نے تو صحرائوں سا ویراں کر دیا ہے میں تنہا تھا تو امیدوںکے کتنے قافلے تھے

Read More

جلیل عالی ۔۔۔ سرِ صحرائے جاں بے چین ہے تصویر کوئی

سرِ صحرائے جاں بے چین ہے تصویر کوئی بیاضِ آرزو میں لکھ نئی تحریر کوئی ازل سے ایک بے منزل سفر میں ساتھ اپنے کچھ ایسے خواب ہیں جن کی نہیں تعبیر کوئی قدم بڑھتے نہیں احساس کی سرحد سے آگے بندھی ہے پائے عرضِ شوق میں زنجیر کوئی کسی بخشے ہوئے خلعت کا جب بھی سوچتا ہوں مجھے اندر سے کر دیتا ہے لیرو لیر کوئی ترے سائے میں آتے ہی گنیں سب سانس اپنے ترا دستِ نوازش ہے کہ ہے شمشیر کوئی معین ہے یہاں عالی حدِ پرواز…

Read More

جلیل عالی ۔۔۔ تیری محفل پہ بُرا وقت جو آیا ہوا ہے

تیری محفل پہ بُرا وقت جو آیا ہوا ہے آپ ہی دیکھ کہاں کس کو بٹھایا ہوا ہے ناگہاں آگ جل اٹھتی ہے کسی کونے سے کوئی آسیب در و بام پہ چھایا ہوا ہے نئی تعمیر کے آثار  تو دیکھے نہ کہیں شہر کا شہر مگر آپ نے ڈھایا ہوا ہے ہم کہ اک عمر چراتے رہے آنکھیں جن سے اُن سوالات نے اب حشر مچایا ہوا ہے دشمنوں کی کسی سازش کا نہیں دخل اِس میں یہ جو ادبار ہے اپنا ہی کمایا ہوا ہے کھیل سے ہی…

Read More