علی اصغر عباس ۔۔۔ آگہی!

آگہی!
یہ جودن کی برف پگھل کے
دھوپ کی جھیل بنے
دوجے پہر کے جنگل میں سے
تپتا سورج
سائے کے اک رتھ پر گذرے
سناٹے کا چابک برسے
وقت کا گھوڑا بِدکے
ایک صدا آسیب بنے
سورج رتھ سے لڑھکے، شام کا دریا
دھوپ جھیل کا پانی پی کے بھاگے
رات سمندر میں مل جائے
چاند،پہاڑ سے اترے
تارے رقص کریں
بادل وجد میں آئے
وہ بارش برسائے
جل تھل ہی ہوجائے
زیست سویرا
عمرِ رواں کی ریت گرائے
ایک غبار اڑے
اور سراب بنے
کوئی کیسے خواب بنے
دور کسی کو نیند نہ آئے
آنکھ مری لگ جائے!

Related posts

Leave a Comment