علی اصغر عباس … وفورِ گریہ سے بہتر خوشی نہیں کوئی

وفورِ گریہ سے بہتر خوشی نہیں کوئی ہمیں ملی بھی تو بڑھ کر ملی نہیں کوئی غمی خوشی میں جو آنسو کلام کرتے ہیں زبان ایسی مؤثر  بنی نہیں کوئی خوشی غمی کو تُو  رنگوں سے نسبتیں مت دے سفید اور سیہ میں چھپی نہیں کوئی بدن کے زخموں سے بڑھ کر تو دل پہ چرکے ہیں نشاط خیز اذیت بچی نہیں کوئی نوائے درد کی تانیں بھی ہچکیوں سی ہیں چُھوئی لبوں سے مگر بانسری نہیں کوئی بدن کے چیتھڑے پہنے ہوئے ہیں روحوں نے لباسِ فاخرہ  میں دلکشی…

Read More

علی اصغر عباس … عدم آباد!

عدم آباد! میں نے زندگی کے جھروکے سے جھانک کر دیکھا تو حیات ہمیشگی کا لباس پہنے عدم آباد کے صحن میں ابد کے بے پایاں پیڑ کی شاخ پہ دوام کی پینگھ جھول رہی تھی دور لاکھوں کروڑوں میل کے فاصلے پر خاک کے قضا رسیدہ وجود غرور میں تنی گردنوں کے بوجھ سے آزاد مٹی کا غبار ہو چکے تھے جاودانی کا زعم اجل کے کیڑے نے کھا لیا تھا نوشتہ تقدیر کے حروف اُڑچکے تھے ثبات کا نیا شمارہ انسانیت کے گلیز پیپر پہ پوری آب و…

Read More

علی اصغر عباس ۔۔۔ از رفتہ! (نثری نظم)

از رفتہ! (نثری نظم) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گاؤں کی طرف جاتا  راستہ یادوں سے اٹا پڑا تھا کھیتوں  کی پگڈنڈیوں پہ دوڑتا بچپن درختوں کے تنوں سے لپٹا لڑکپن شاخوں پہ جھولتا شباب شام کے سرمئی سایوں میں فصلوں کی اوٹ میں نادانیوں کے رنگ اوڑھنی کے پلو سے جھلکتے نوخیز حسن کی شرمیلی مسکان آج میری گاڑی سے اڑتی مٹی کی دھول بنے آنکھوں کے غبار میں شامل  ہوکے پلکوں پہ جم رہے تھے گاڑی کے ساتھ دوڑتا وقت تیزی سے پیچھے کی طرف بھاگ رہا تھا بیک مرر میں ازرفتہ…

Read More

علی اصغر عباس ۔۔۔ سوختہ جاں

سوختہ جاں ۔۔۔۔۔۔۔ گرفتِ شب سے نکلتے ہوئے جو سورج سے سوال پوچھا کہ راتیں کہاں گزارتے ہو سنہری چاندنی کی جھالریں ستاروں سی رداِےگردوں میں چپ چاپ ٹانک جاتے ہو کنارِ بامِ افق پر صلیب پر لٹکا اندھیرا عالمِ ہو کی دراز باہوں میں کبیدہ وقت  کی سرگوشیوں میں دم توڑے ہماری  رات کی تنہائیوں کے موسم میں نہالِ تن پہ اذیت کے پھول کھلتے ہیں لبوں کی شاخ پہ برگِ صداےکرب کے ساتھ کسی کی یاد بھی یوں بور بور جھڑتی ہے کہ خاک زاد بدن بھی غبار…

Read More

علی اصغر عباس ۔۔۔ آگہی!

آگہی! یہ جودن کی برف پگھل کے دھوپ کی جھیل بنے دوجے پہر کے جنگل میں سے تپتا سورج سائے کے اک رتھ پر گذرے سناٹے کا چابک برسے وقت کا گھوڑا بِدکے ایک صدا آسیب بنے سورج رتھ سے لڑھکے، شام کا دریا دھوپ جھیل کا پانی پی کے بھاگے رات سمندر میں مل جائے چاند،پہاڑ سے اترے تارے رقص کریں بادل وجد میں آئے وہ بارش برسائے جل تھل ہی ہوجائے زیست سویرا عمرِ رواں کی ریت گرائے ایک غبار اڑے اور سراب بنے کوئی کیسے خواب بنے…

Read More

علی اصغر عباس ۔۔۔ بے چارگی

بے چارگی ۔۔۔۔۔۔ دروازے کی درزوں سے اندر آتی دھوپ،ہوا باہر جاتی سسکی تالے اور چٹخنی کو چُپ کا زنگ لگاتی ہے باہر دن کا پہرا اندر کالی رات ایک اور چھ برابر سات چرچ،مدرسہ،گرودوارہ مٹی ہوگئی گارا راکھ کا ڈھیر ستارا

Read More

علی اصغر عباس ۔۔۔ رات معزول تھی

رات معزول تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شب رسیدہ ستاروں کی مشکیں کسی جا رہی تھیں چاند پیلا پڑا تھا کہ دریا اسے بحرِ اسود میں غرقاب کرنے چلا تھا ایک طوفاں کناروں سے باہر امڈتا  نشیبی علاقوں میں مٹی کے گھر آبِ زردوز کرنے کو بے تاب تھا پانیوں کی خلیجیں ریگِ امکاں پہ بکھری ہوئی زیست کی کرچیاں چننے والوں کو رنجِ فراواں دیے جا رہی تھیں حسنِ امروز برگشتہ ایام تھا زمانے کے ٹب میں گندھا وقت، جیسے خمیرِ روراں تھا جسے عرصہ لمحوں کی تاریں بنائے چلا جا رہا…

Read More

علی اصغر عباس ۔۔۔ GENESIS

GENESIS ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارادہ تھاکہ میں بھی زندگی کا لطف لوں گا اور اس کے ساتھ کھیلوں گا اسی امکان پہ ارواح سے میں نے اجازت لی کہ چپکے سے لہو کے لوتھڑے میں جان،بن آیا اندھیرے میں لہو کا لوتھڑا چمکا ذرا دھڑکا جو لمبی سانس کھینچی تو کسی نے پیرہن بدلا غبارے میں ہوا کے ساتھ پانی نے لہو کا لوتھڑا سینچا عجب نقشہ نگاری کی مرے بھی خال و خد نکلے مری تجسیم ہوتے ہی غبارے سے ہوا نکلی تو مجھ کو گدلے پانی نے دھکیلا اور کالی…

Read More