علی اصغر عباس ۔۔۔ از رفتہ! (نثری نظم)

از رفتہ! (نثری نظم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاؤں کی طرف جاتا  راستہ
یادوں سے اٹا پڑا تھا
کھیتوں  کی پگڈنڈیوں پہ دوڑتا بچپن
درختوں کے تنوں سے لپٹا لڑکپن
شاخوں پہ جھولتا شباب
شام کے سرمئی سایوں میں
فصلوں کی اوٹ میں نادانیوں کے رنگ
اوڑھنی کے پلو سے جھلکتے نوخیز حسن کی
شرمیلی مسکان
آج میری گاڑی سے اڑتی مٹی کی دھول بنے
آنکھوں کے غبار میں شامل  ہوکے
پلکوں پہ جم رہے تھے
گاڑی کے ساتھ دوڑتا وقت
تیزی سے پیچھے کی طرف بھاگ رہا تھا
بیک مرر میں ازرفتہ زمانہ
میرے ہم زاد کی ہم راہی میں
گاڑی کے پیچھے دوڑتے بچوں کے ساتھ
مٹی پھانکتا تالیاں پیٹ رہا تھا
آسمان پہ چھائے بادلوں میں بجلی چمکی
گاؤں کو سرما کی پہلی بارش نے آلیا تھا
میں آنسوؤں میں نہالیا تھا!

Related posts

Leave a Comment