علی اصغر عباس ۔۔۔ طفلِ ناداں!

طفلِ ناداں!
۔۔۔۔۔۔۔
واہمہ زاد محبت سے شرابور ہوا
تخلیہ چھان کے نکلا تھا بھری محفل سے
رخشِ امروز پہ رفتہ کا لدا بوجھ بھی تھا
کبر کی زین میں اڑسے ہوئے فتراک میں تیر
در گذر،زہر  کی پڑیا تھا جسے نخوت سے
خود فریبی ہی کے تالاب کے گدلے پن میں
عالمِ غیظ میں پھینکے ہوئے عرصہ گذرا
اسپِ امروز بدکتا ہوا دیکھا سب نے
لاف زن پھر بھی نگہ دارِ تماشا  نہ ہوا
ہاں مگر ایک زمانہ کہ تماشائی تھا
آتشِ عشق کوگلزار سمجھنے والا
جانتا تھا کہ ابھی زیرک و ہشیار نہیں
نیک طینت بھی نہیں ہے جو یہ مکار نہیں
وصل کا ہجر کی فرصت میں کھلونا جو ملا
طفلِ ناداں نے کیاشغل ، اسے توڑ دیا
برلبِ گور بجوگی نے کسے چھوڑ دیا؟
حیرتی سنگ زنی ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں
ایک رخ سے جو عجب رنگ میں
شہ مات ہوئی
کیسا دن تھا کہ سحر بعد ازاں رات ہوئی!

Related posts

Leave a Comment