جلیل عالی ۔۔۔ تیری محفل پہ بُرا وقت جو آیا ہوا ہے

تیری محفل پہ بُرا وقت جو آیا ہوا ہے آپ ہی دیکھ کہاں کس کو بٹھایا ہوا ہے ناگہاں آگ جل اٹھتی ہے کسی کونے سے کوئی آسیب در و بام پہ چھایا ہوا ہے نئی تعمیر کے آثار  تو دیکھے نہ کہیں شہر کا شہر مگر آپ نے ڈھایا ہوا ہے ہم کہ اک عمر چراتے رہے آنکھیں جن سے اُن سوالات نے اب حشر مچایا ہوا ہے دشمنوں کی کسی سازش کا نہیں دخل اِس میں یہ جو ادبار ہے اپنا ہی کمایا ہوا ہے کھیل سے ہی…

Read More

جلیل عالی ۔۔۔ اک اک ابرو اشارہ تِیر ہوتا جا رہا ہے

اک اک ابرو اشارہ تِیر ہوتا جا رہا ہے لب و لہجہ ترا شمشیر ہوتا جا رہا ہے وہ نکلا تھا جسے اپنی نگہ کا صید کرنے خود اُس کے حسن کا نخچیر ہوتا جا رہا ہے بدن کے زخم تو اعزاز کر لیتا ہوں لیکن مرا پندار بے توقیر ہوتا جا رہا ہے مرے سامان میں رکھا گیا اک خوف سایا مری رفتار کو زنجیر ہوتا جا رہا ہے گرفتِ داستاں گو میں نہیں رہنی کہانی کہ اب قصہ بہت گمبھیر ہوتا جا رہا ہے کتابوں میں بھلے جیسی…

Read More

جلیل عالی ۔۔۔ کسی موسم ہوا سے دو ستی آغاز کرتے

کسی موسم ہوا سے دو ستی آغاز کرتے پرندے دشت کے سارے شجر ہمراز کرتے اک اوجِ شوق سے گر دیکھتے اِس شہرِ جاںکو مناظر حیرتوں کے اور ہی در باز کرتے فروزاں تھے لہو میں درد کے مہتاب جتنے سب اُس کے عکس تھے کس سے کسے ممتاز کرتے یہیں اِن وادیوں کی گونج بنتے گیت اپنے انہی خاموش جذبوں کو جو ہم آواز کرتے بجھا کر آفتاب اب اس کا ماتم کر رہے ہیں گہن تو اک ذرا سا تھا نظر انداز کرتے کوئی تو سطر عالی کہکشاں…

Read More

جلیل عالی ۔۔۔ کتنے محتاط ہو گئے ہیں ہم

کتنے محتاط ہو گئے ہیں ہم بے طرف بات ہو گئے ہیں ہم دل گرفتِ جہاں سے کیا نکلا قیدیٔ ذات ہو گئے ہیں ہم خود کو بھی اب دکھائی کیا دیں گے ظلم کی رات ہو گئے ہیں ہم دل بدر کر کے ولولے سارے گزر اوقات ہو گئے ہیں ہم دوش و فردا کا ہوش ہے کس کو نذرِِ حالات ہو گئے ہیں ہم جو بھی لمحہ قریب سے گزرا اس کے ہی ساتھ ہو گئے ہیں ہم اُس نے دیکھا ہے ٹوٹ کر عالی اور ذرّات ہو…

Read More

جلیل عالی ۔۔۔ رہ کوئی نکالی بھی تو کیا اپنا ہنر ہے

رہ کوئی نکالی بھی تو کیا اپنا ہنر ہے تقدیر سے تقدیر کی جانب ہی سفر ہے سب رنج و مصائب کا سبب اپنی خطائیں ہر راحتِ جاں تاب کا سہرا ترے سر ہے توڑا ہے زمانے کے حصاروں کو کئی بار پر ذات کے غاروں سے کہاں ہم کو مفر ہے پہچان ستارے تو گئے ہاتھ سے سارے اک خواب سہارا بھی نہ چھن جائے یہ ڈر ہے تاراج کیے اُس نے جنوں خیز حوالے اب سوچ اجالوں کی طرف اس کی نظر ہے اک سمت محبت ہے اور…

Read More

جلیل عالی ۔۔۔ سُنی نہ اُس نے کبھی شہرِ مبتلا کی کتھا

سُنی نہ اُس نے کبھی شہرِ مبتلا کی کتھا سنائے جاتا ہے اک کھوکھلی رِجا کی کتھا کسی کی وحشتِ دل میں گنوا گیا کوئی جاں الگ دِیے کی کہانی ، جدا ہوا کی کتھا پسِ حجابِ عبارت بھی غور سے دیکھیں کہ اور بھی کوئی ہوتی ہے ہر کتھا کی کتھا کیے ہوئے ہیں ہمیں اپنی منطقوں کا اسیر مجھے ضمیر کا قصہ، اُسے انا کی کتھا الم نصیب ہوئے دردِ مشترک میں قریب تھی منفرد بھی ہر اک فردِ بے نوا کی کتھا درونِ ذات بھی میں حالتِ…

Read More

جلیل عالی ۔۔۔ اب کی بہاروں جوبن پر تھے شوق شجر کتنے

اب کی بہاروں جوبن پر تھے شوق شجر کتنے کس کو خبر تھی آجائیں گے درد ثمر کتنے کتنی شبوں کی نیند گنوا کر دیکھا اک سپنا دیکھ لیا اک سپنا تو پھر جاگے ڈر کتنے کتنی سُونی سُونی ہو گئیں چاہت کی گلیاں سوچ ہوائیں کر گئیں جذبے شہر بدر کتنے گزرے کیسے کیسے ظالم لمحوں کے لشکر کھودی یاد زمین تو نکلے خواب کھنڈر کتنے جانے اک دیوار پہ کیسا نقش بنا بیٹھے سارے گھر میں جاگ اُٹھے آسیب اثر کتنے

Read More

جلیل عالی ۔۔۔ منظر منظر دل آنکھوں نے کھولے در کتنے

منظر منظر دل آنکھوں نے کھولے در کتنے ایک سفر کے اندر جاگے اور سفر کتنے شوق سمندر کے ساحل پر دل نے اِس موسم شہر بسائے کتنے ہر اک شہر میں گھر کتنے وہ بچھڑا تو چہرہ چہرہ اُس کے عکس کھِلے اک خورشید بجھا تو روشن ہوئے قمر کتنے اگلے دوراہے پر اتنی دھند نہیں ہو گی کھل جائے گا اب جاتے ہیں کون ،کدھر،کتنے دل کی لوح پہ سچائی کا اسم جو روشن ہو کھلتے جائیں عا لی آپ سے آپ ہُنر کتنے

Read More

جلیل عالی ۔۔۔ جب بھی بادل بارش لائے شوق جزیروں سے

جب بھی بادل بارش لائے شوق جزیروں سے خوشہ خوشہ حرف کی بیلیں بھر گئیں ہیروں سے تم سے ملے تو شہرِ تمنا کتنا پھیل گیا کیا کیا خواب نئے تعمیر ہوئے تعبیروں سے آنکھیں رنگوں کی برساتیں تک تک جھیل ہوئیں دل نے کیا کیا عکس کشید کیے تصویروں سے اُس کو چھونے کی خواہش نے ہاتھ بڑھائے تو پھن پھیلائے نکلے کتنے سانپ لکیروں سے عالی دانش کی بستی میں اب سردار وہی ڈھونڈ نکالے کچھ اندھیارے جو تنویروں سے

Read More

جلیل عالی ۔۔۔ درد لکھے تو جانا کہ کیا کچھ برونِ بیاں رہ گیا

درد لکھے تو جانا کہ کیا کچھ برونِ بیاں رہ گیابات کی تو کھلا کس قدر فاصلہ درمیاں رہ گیا ہر کسی کی نظر میں فقط سامنی سیڑھیوں کے دِیےکس کو یہ سوچنے کی فراغت کہ کوئی کہاں رہ گیا دل کے آنگن میں اترے کہاں سے کوئی روشنی کی کرنآسمانِ وفا پر بجھے سورجوں کا دھواں رہ گیا وقت کی آندھیوں سے سبھی چاہتوں کے شجر گر گئےزندگی کا نشاں اک تری یاد کا سائباں رہ گیا سوچ سیلاب عالی بہا لے گیا سب ہمارے یقیںسطحِ احساس پر اپنے…

Read More