جلیل عالی ۔۔۔ اک اک ابرو اشارہ تِیر ہوتا جا رہا ہے

اک اک ابرو اشارہ تِیر ہوتا جا رہا ہے
لب و لہجہ ترا شمشیر ہوتا جا رہا ہے

وہ نکلا تھا جسے اپنی نگہ کا صید کرنے
خود اُس کے حسن کا نخچیر ہوتا جا رہا ہے

بدن کے زخم تو اعزاز کر لیتا ہوں لیکن
مرا پندار بے توقیر ہوتا جا رہا ہے

مرے سامان میں رکھا گیا اک خوف سایا
مری رفتار کو زنجیر ہوتا جا رہا ہے

گرفتِ داستاں گو میں نہیں رہنی کہانی
کہ اب قصہ بہت گمبھیر ہوتا جا رہا ہے

کتابوں میں بھلے جیسی بھی تم تاریخ لکھو
دلوں پر وقت خود تحریر ہوتا جا رہا ہے

انائیں اس قدر مجہول ہوتی جا رہی ہیں
سخن کا مبتدی بھی میر ہوتا جا رہا ہے

دلوں کی سر زمیں تک  آ گئی یلغارِ دہشت
یہ خطہ وادیِ کشمیر ہوتا جا رہا ہے

Related posts

Leave a Comment