ممتاز راشد لاہوری ۔۔۔ دو غزلیں

آج قدرت کی مہربانی سے
بجھ گئی پیاس گرم پانی سے

دیدنی تھا جمال چہرے کا
مل کے آئے تھے جب وہ جانی سے

ایسی بے باک تھی ادا اُس کی
ہو گئے ہم تو پانی پانی سے

ہجر میں دل لگائے رکھتے ہیں
آپ کی ایک اک نشانی سے

شاعری اور لُطف دیتی ہے
جب ادا ہو ذرا روانی سے

ہو گیا ختم آپ کا کردار
باہر آ جائیں اب کہانی سے

شاعری کی بیاض پاس نہیں
گیت سُن لیجیے زبانی سے

اک ستمگر کے ساتھ رہنا ہے
بچ کے راشد ضرر رسانی سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نئے کچھ بھی نہیں اقدام اپنے
وہی معمول کے ہیں کام اپنے

وہ مہکاتے ہیں صبح و شام اپنے
بہت پُرنور ہیں گلفام اپنے

نگاہیں ہو گئی تھیں اُس پہ صدقے
نہارے اُس نے یوں اندام اپنے

عنایت آپ کی جاری ہے پیہم
سنورتے جا رہے ہیں کام اپنے

ہمیں بھی کچھ گلہ ہو گا نہ اُن سے
جو واپس لیں گے وہ الزام اپنے

بہت نزدیک ہیں شفافیت کے
بہت گہرے نہیں ابہام اپنے

حریفوں کو بتا دے کوئی راشد
لگیں گے اُن سے بہتر دام اپنے

Related posts

Leave a Comment