افتخار شاہد ۔۔۔ دو غزلیں

چراغ چپ ہیں، اندھیرے کا راج ہے  شاہد 
ہوائے شام کا اپنا مزاج ہے شاہد

بڑھا رہے ہو مری سمت ہاتھ تم لیکن
جو درمیان کھڑا ہے سماج ہے شاہد 

ہمارے شہر میں پھولوں کا نام رکھتے ہیں
ہمارے شہر کا الٹا رواج ہے شاہد

ہمارے سر سے بلاؤں کو کون ٹالے گا
ہمارے سر پہ محبت کا تاج ہے شاہد 

کبھی کسی کے نوالے نہیں گنے ہم نے
ہمارے  پاس تو اپنا اناج ہے شاہد

جمالِ یار سے سارا چمن مہکتا ہے
جمالِ یار کا سارا خراج ہے شاہد 

ہمارے نخلِ تمنا سے برف جھڑنے لگی
سراجِ شوق بلندی پہ آج ہے شاہد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تری صورت نہیں، لہجے سے تجھے جانتا ہوں
میں جو آواز کے ناطے سے تجھے جانتا ہوں

میں ترے نام سے واقف بھی نہیں ہوں لیکن
اجنبی شخص! میں عرصے سے تجھے جانتا ہوں

تو کسی اور حوالے سے مجھے جانتا ہے
میں کسی اور حوالے سے تجھے جانتا ہوں

مرے معبود! گناہوں میں گھرا ہوں لیکن
تری رحمت کے قرینے سے تجھے جانتا ہوں

تری رنگت یا خد وخال سے کیا لینا ہے
تْو ہے یاروں کے علاقے سے! تجھے جانتا ہوں

اے مرے دل کو سلیقے سے چرانے والی
میں ترے طور طریقے سے تجھے جانتا ہوں

گلفروشوں سے فقط اتنا تعارف ہے مرا
ایک گل پوش دریچے سے تجھے جانتا ہوں

زندگی تجھ سے تعلق ہے تو چُپ ہوں ایسے
ورنہ میں ایک زمانے سے تجھے جانتا ہوں

تجھ کو چھونا تو اضافی تھا مرے پھول بدن
تری خوشبو سے، پسینے سے تجھے جانتا ہوں

شعر کہتا ہوں ترے حسن پہ اکثر شاہد
مری محبوب سلیقے سے، تجھے جانتا ہوں

Related posts

Leave a Comment