جلیل عالی ۔۔۔ کتنے محتاط ہو گئے ہیں ہم

کتنے محتاط ہو گئے ہیں ہم
بے طرف بات ہو گئے ہیں ہم

دل گرفتِ جہاں سے کیا نکلا
قیدیٔ ذات ہو گئے ہیں ہم

خود کو بھی اب دکھائی کیا دیں گے
ظلم کی رات ہو گئے ہیں ہم

دل بدر کر کے ولولے سارے
گزر اوقات ہو گئے ہیں ہم

دوش و فردا کا ہوش ہے کس کو
نذرِِ حالات ہو گئے ہیں ہم

جو بھی لمحہ قریب سے گزرا
اس کے ہی ساتھ ہو گئے ہیں ہم

اُس نے دیکھا ہے ٹوٹ کر عالی
اور ذرّات ہو گئے ہیں ہم

Related posts

Leave a Comment